صنم جونیجو
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اقلیتیں محفوظ نہیں رہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے تو دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں اقلیتوں پر ہمیشہ ظلم ہی ہوتا رہا ہے۔ پھر چاہے وہ انڈیا ہو، آسٹریلیا ہو، کینیڈا ہو یا پھر پاکستان ہو ،اقلیتیں ہمیشہ ظلم کا شکار رہی ہیں۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر حملوں میں ہندو، احمدی، شیعہ، اور عیسائی شامل ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کے سینکڑوں لوگ جانیں گواہ چکے ہیں۔ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو جبری تبدیلی مذہب اور شادیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
پاکستان میں ہندو خواتین کی جبری تبدیلی، عصمت دری اور زبردستی کی شادیاں پاکستان میں متنازعہ بن گئی ہیں۔ اقلیتوں پر حملوں کی وجہ سے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والی پالیسیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اقلیتوں کو اکثر امتیازی سلوک اور ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جب کہ اقلیتوں کے حوالے سے آرٹیکلز یہ کہتا ہے کہ تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں۔ آرٹیکل کہتا ہے کہ ہر شہری کو “اپنے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
آرٹیکل 36 کے تحت اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، اس کے مطابق ریاست اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی، بشمول صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں ان کی مناسب نمائندگی دی جائے گی۔
اسلام کے مطابق ان کے تمام بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ پاکستان کا آئین پاکستان کے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اقلیتیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی عبادت گاہیں بنانے میں بھی آزاد ہیں۔
آرٹیکل 4 کے تحت ریاستیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جہاں ضرورت ہو اقدامات کریں گی کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے تمام انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو بغیر کسی امتیاز کے اور مکمل مساوات کے ساتھ مکمل اور مؤثر طریقے سے استعمال کر سکیں۔
کیا ان سب آرٹیکل کے باوجود ان پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ کیا قانون کے باوجود اقلیتیں پاکستان میں محفوظ ہیں یہ سب وہ سوالات ہیں جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ملیر کی سینئر وکیل عابدہ پروین سے بات کی انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر کیسز زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور اغوا کے آتے ہیں جو کہ بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں لیکن ابھی تک ان کیسز کے نتیجے سامنے نہیں آئے۔ اقلیتیں پاکستان میں بلکل محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ایسے کیسز بھی دیکھے ہیں جن میں ان کے سامنے اقلیتوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور وہ ڈر کی وجہ سے کیسز وڈرو کروا لیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ ڈر کی وجہ سے کیسز کرواتے ہی نہیں ہیں اور اگر کوئی کروا لے تو بدقسمتی سے کیس آگے چل ہی نہیں پاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ لوگ ڈر کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے تھر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے ہم نے بات کی جس نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ اس کو زبردستی اغوا کرنے کے بعد دس دن اس کو قید میں رکھا گیا اس پر بہت زیادہ ظلم کیا گیا .اس کے بعد زبردستی میرا مذہب تبدیل کروایا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کو بہت زیادہ دھمکیاں دی گئیں کہ اگر میں نے بات نہ مانی تو اس گھر والوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ جب ہم نے اس حوالے سے اس بات کی تو اس وقت بھی وہ اپنے گھر والوں کو یاد کر کے بہت زیادہ افسرده ہو گئی۔ اس واقعے کو تقریبن دس سال ہو گئے ہیں۔