اقراء خالد
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اکثر انسانی حقوق کا سب سے اہم پہلو مذہب ہوتا ہے. اس لیے مذہب کی بنیاد پر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں. ان میں زیادہ تر ان خواتین کا شمار ہوتا ہے جو گزر بسر کرنے کے لیے محنت مشقت کرتی ہیں.
ہمارے گھروں میں کوڑا اٹھانے والی خواتین جن کو ہمارا معاشرہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ہے، وہ کن مسائل سے گزر رہی ہے شاہد ان کو جاننے کے لیے ہمارے معاشرے نے زیادہ کوشش نہیں کی ۔ آج کے اس دور میں جہاں روز مرہ کے اخراجات اٹھانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، وہاں یہ خواتین مشکل سے اپنے گھروں کو چلا رہی ہیں ۔
ارم بی بی جو ایک مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہیں، لوگوں کے گھروں کا گندہ اٹھانا آسان کام نہیں لیکن زندگی گزارنے کے لیے یہ کرنا پڑ رہا ہے۔ جس میں نہ لوگوں کی طرف سے اچھا رویہ ہے اور نہ سی ڈے اے کی طرف سے لوازمات پورے کیے جا رہے ہیں. مہنگائی میں جو مشکل ہے سو ہے لیکن ہماری خود کی محنت نہیں مل رہی ہے۔ تین ماہ کام سے ہٹانے کے باوجود دو ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ۔ زندگی ایسے ہے جیسے کانٹوں پر چلنا اور اس لیے زندگی مشکل سے مشکل ہو رہی ہے. بچوں کو اچھی زندگی نہیں دے پا رہے نہ ہمیں بولنے کا حق ہے اور نہ مانگنے کا حق رکھتے ہیں، اگر بولتے ہیں تو جاب سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور اس لیے نوکری کے لیے چپ رہنا پڑتا ہے ۔
کلثوم بی بی بھی جو کے اسی کام سے وابستہ ہیں، وہ بھی محنت تو کر رہی ہے لیکن ان کو وہ سہولتیں میسر نہیں جو کسی بھی سرکاری ملازمت رکھنے والے کو ملتی ہے تنخواہیں تو ایک طرف کوڑا اٹھانے والی چیزیں بھی مسیر نہیں ہیں. تنخواہیں اور گھر کے حالات کی وجہ سے ہم اپنے کوڑا اٹھانے والاسامان بھی مانگ کر پورا کرتے ہیں. اس پر پھر لوگوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہم کوئی انسان نہیں بلکہ ناکارہ چیز ہو ں. یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ کرسمس جہاں خوشیاں اور خوداوند کی رحمت لے کر آتی ہے، وہاں ہم جیسے غریب لوگوں کو کہا ں نصیب ہوتی ہے. ان سب حالات میں ہم کیسے یہ کرسمس منا سکتے ہیں ، جہاں ہمیں دو ماہ سے سیلری نہیں ملی.ہماری تنخواہوں سے ہمارے گھر چلتے ہیں، وہ ہمیں مل نہیں رہی، ہماری زندگیاں انتہائی مشکل میں ہیں، بس خداوند سے دعا ہے ہماری وہ ہی مدد کرے ۔
کہتے ہیں کچھ لوگ سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوتے ان کو زندگی گزارنے کے لیے محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے تو ہمارے معاشرے کا یہ فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی معاشرے کا حصہ سمجھا جائے اور ایسے لوگوں کی خوشیوں میں ان کا ساتھ دیا جائے تاکہ وہ بھی خود کو معاشرے کا فرد سمجھیں۔