فوزیہ کلثوم رانا
کالم نگار
جینڈر پالیسی تومیڈیا ہاوسسز یا دیگر اداروں میں نافذالعمل نہیں ہے مگر پاکستان میں اب خواتین کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ پیشہ وارانہ امور میں ساتھ دینا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں خواتین جس طرح ہر شعبے میں نام کما رہی ہیں اسی طرح شعبہ صحافت میں بھی اب خاصی خواتین نام بنا رہی ہیں ۔ چاہے کیمرہ مین ہوں، فو ٹو جرنلسٹس ہوں، وڈیو ایڈیٹرز ہوں، سب ایڈیٹر ہوں، اخبار یا ٹی وی کی رپورٹرز ہوں یا پھر اینکرز ہوں ، وی لاگرز، یو ٹیوبرز ،ویب سائیٹ ایڈیٹر یا پرڈیوسرز ، اب خواتین ان تمام شعبوں میں نام کما رہی ہیں ۔
پاکستان میں ایک محتاط اندازے کےمطابق مختلف اداروں میں 31 ہزار 281 خواتین افسران ہیں، ایک ہزار 246 مرکزی سیکریٹریٹ میں ملازمت پیشہ ہیں ،جبکہ 30 ہزار 35 خواتین منسلک محکموں اور ذیلی دفتروں میں موجود ہیں۔ پنجاب میں 73.68 فیصد، سندھ میں 12.76 فیصد، خیبر پختونخوا میں 7.9 فیصد اور بلوچستان میں 1.93 فیصد خواتین برسرملازمت ہیں۔ اسی طرح وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں 1.36 فیصد اور گلگت بلتستان میں 0.56 فیصد خواتین کے لیے مخص ہے۔عوامی دفاتر میں جنسی امتیاز سے متعلق عمومی طور پر خواتین کو ملازمت پر نہ رکھنے سے متعلق ایک سوچ غالب ہے کہ خواتین ملازمت جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ ملک میں متعدد خواتین افسران (گریڈ 16 اور 17) بطور استاد، ماہر نفسیات اور نرس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اسی طرح شعبہ صحافت میں بھی ہر صوبے میں خواتین کا 10 اور اقلتیوں کا 5 فیصد کوٹہ مختص ہے جبکہ سی ایس ایس کی 100 نشستوں پر 2016 سے اب تک کسی خاتون اور اقلیت کو ملازمت نہیں مل سکی۔
شعبہ صحافت میں یہ تاثر عام ہے کہ خواتین مشکل موضوعات اور بیٹس کی کوریج نہیں کرسکتیں ہیں۔ اس وجہ سے صحافت میں خواتین کو قدرے آسان سمجھی جانے والی بیٹس تک محدود کیا جاتاہے۔ نیوز روم میں عموما رپورٹر خواتین کو موسم، صحت اور تعلیم کے شعبوں، شوبز یا سٹی رپورٹنگ کی کوریج یا پھر زیادہ سے زیادہ مظاہرے کور کرنے کی بیٹ دے دی جاتی ہے۔ یہ ایک خود ساختہ پیکج ہے یعنی جو لڑکی موسمیات کور کرے گی وہی صحت، انسانی حقوق، غیر سرکاری تنظیموں اور تعلیم کے معاملات کی کوریج بھی کرتی ہے بطور خاص بر صغیر میں میڈیا اور کئی ترقی پزیر ممالک میں مرد سیاست، عدالت اور کرکٹ پرائم ٹائم پر قابض رہتے ہیں۔ ایسے میں صحت، تعلیم اور موسم کی خبریں غیر اہم تصور کی جاتی ہیں اور ان خبروں کو فائل کرنے والی خاتون صحافی خبروں سے بھی زیادہ غیر اہم ہیں، حالانکہ اب یہ صورت حال اب بدل رہی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خاتون رپورٹرز کی خبروں سے زیادہ ان کے کپڑوں، میک اپ، انداز و اطوار پر کمنٹس کیے جاتے ہیں اور نوجوان لڑکیوں کو چاہے وہ اچھی رپورٹنگ نہ بھی کر سکیں بآسانی سکرین مل جاتی ہے اور بہت ساری قابل صحافی خواتین کو بڑھتی عمر یا شادی ہونے کی وجہ سے میڈیا کے ادارے نوکری پہ نہیں رکھتے یا بہانے بازی سے نکال دیتے ہیں۔ بعض اوقات کامیاب خواتین صحافیوں کی خبروں اور تحریروں کو بھی دقیانوسی سوچ کے تحت ان کے مرد دوستوں کی مرہون منت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اگر کسی خاتون صحافی کا شوہر یا بھائی صحافی ہے تو خاتون کی کامیابی کا سہرا گھر کے مرد کو دیا جاتا ہے۔ ایسی صحافی خاتون کی قابلیت کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
سئینر صحافی شہناز تاری نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست، میڈیا ہاوسز، سول سوسائٹی اور پریس کلبوں کو اس حوالے سے تربیت دی جائے کہ کس طرح خواتین کی شمولیت کو بڑھایا جاسکتا ہے اور جینںڈر پالیسی کو اگرمتعارف کروادیا جائے تو اس سے نہ صرف کام کا ماحول سازگار ہوجائے گا بلکہ آئےروز جنسی ہراسگی، کم تنخواہوں اور صحافی خواتین کی امتیازی سلوک کی شکایات کا بھی ازالہ ہوسکے گا۔ انہوں نے مزید کہا ابھی بھی خواتین ذہنی تشدد یا آن لائن ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں تو انہیں کس طرح تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے اس پہ بات ہونی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ہاوسز میں صحافی خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر زیادہ سے زیادہ خواتین کو مواقع دینے چاہئیں، تاکہ وہ اپنے ماتحت کام کرنے والی خواتین کے مسائل کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ صحافی خواتین کے کلیدی کردار کو بڑھانے کے لئے پریس کلبز اور یو نینز کو بھی ریفارمز لانے چاہیئے وہی چہرے بار بار عہدے بدل بدل کر سامنے لائے جاتے ہیں مگر اس سے صحافی خواتین کی حقیقی ترجمانی نہیں ہو پاتی ایسا محسوس ہوتا ہے چند لوگوں کو ہی بار بار نوازاجا رہا ہے ۔
نیلم ارشد جو کورٹ رپورٹنگ کی ماہر ہیں انہوں نے بتایا کہ ان جیسی اور بھی بہت ساری قابل خواتین صحافی ہیں جو نیوز روم میں مرد ساتھیوں اور سینیئرز کی مرضی سے کام کرتی ہیں۔ نیلم کئی برسوں سے کورٹ کی رپورٹننگ کر رہی ہیں اور اپنا لوہا منوا چکی ہیں انہوں نے ہائی پروفائیل کیسسز کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے رپورٹنگ کی ہے مگر ان کے مطابق صحافی خواتین پوری لگن محنت اور بہترین کاکردگی کے باوجود بہت سارے اداروں میں کئی برسوں سے آج بھی ’اسٹیپنی رپورٹر‘ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کو تجربے اور قابلیت کی بناء پہ ترقی ملنی چاہئے۔ بڑی خبریں نکال لانے والی خاتون صحافیوں پر عجیب مضحکہ خیز الزامات لگنے عام ہیں۔ یہاں تک کہ کورٹ رپورٹنگ کرنے والی خواتین کو دور جدید میں بھی حیرت سے پرکھا جاتا ہے یہ جملہ عام سننے کو ملتا ہے ہائے آپ کورٹ بھی کور کرتی ہیں۔ خبر خود بناتی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہا کہ جینڈر پالسی کود اگر یقینی بنا دیا جائے تو صحافی خواتین کے مسائل نوے فیصد حل ہوجائیں گے پھر ان کے ساتھ غیر پیشہ وارانہ سلوک کی روکنے تھام میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ ورکنگ کنڈیشنز میں بہت حد تک بہتری ممکن ہوجائے گی۔
نجی ٹی وی کی رپورٹر صباءبجیر نے بتا یا کہ آجکل تو سوشل میڈیا کا دور ہے ایک بھی تصویر وائرل ہوگئی تو کس کس کو جواب دیتی پھریں گی اور دوسری جانب خواتین صحافیوں کو عجب مشکل یہ درپیش ہے کہ اگر وہ اپنے سورس کے ساتھ خبر کے سلسلے میں مل لیں تب بھی طرح طرح کے خدشات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاتون رپورٹرز کی خبروں سے زیادہ ان کے کپڑوں، میک اپ، انداز و اطوار پر کمنٹس کیے جاتے ہیں۔ جو کہ نہ صرف صنفی امتیاز ہے بلکہ ہمارے کام کو کسی اور کے پلڑے میں تول دینا بھی ہے۔ اور ہمارے معیاری کام کو بھی اس طرح سے نہیں سراہا جاتا ہے۔ اور اگرادارے جینڈر پالیسی ترتیب دیں اور یکساں معیار پہ کام کے پیمانے ہوں تو ورکنگ صحافی خواتین کے لیے حالات سازگار بنانے میں مدد مل سکتی ہے.
ؑعکس این جی او کی سربراہ تسنیم احمر جو صحافی خواتین کے مسائل پہ کام کرنے والے ادارے کی سربراہی کرتی ہیں انہوں نے صحافی خواتین کے ساتھ میڈیا ہاﺅسسز اور دیگر پلیٹ فارمز پہ صنفی امتیاز کی وجہ ہمارے اس پدر شاہی نظام اور فرسودہ سوچ کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو پاورفل بیٹس پہ کام نہ کرنے دینا اسی سوچ کی عکاسی ہے کہ یہ نازک ہیں اور کمزور ہیں حالانکہ اب حالات بدل رہے ہیں اور صحافی جنگ کی رپورٹنگ ہو یا قدرتی آفات ہر میدان میں کوریج کرتی نظر آرہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ خاص مردانہ سوچ ہے جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر صحافی خواتین سامنے آگئیں تو اپنی قابلیت کی بناپر یہ اپنا نمایاں مقام حاصل کر لیں گی۔ تسنیم احمر نے کہا کہ صحافی خواتین کو ہمت باندھے رکھنی ہے۔ جم کہ ڈٹی رہیں اور ایسا گروپ تشکیل دیں جو لوگ صنفی امتیاز کے حامی نہ ہوں وہ صحافی خواتین کے لئے یہ ایک بڑی سپورٹ ہو سکتے والا ہیں۔
میڈیانا ہاؤسسز میں پایا جانے والا صنفی امتیاز نہ صرف صحافی خواتین کے با اختیار کردار کی نفی کرتا ہے بلکہ اس سے صدیوں پرانی وہی سوچ بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ صحافی خواتین کی بھی یکساں مواقع حاصل کرنے کی جنگ اتنی ہی کٹھن ہے جتنی کسی وکیل, جج, نرس یا ڈاکٹر کی ہے۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ میڈیا ہاوسسز میں جینڈر پالیسی لاگو کروانے کی تگ وہ دو شروع ہوچکی ہے اور یہ صرف یکساں شعبوں میں رپورٹنگ تک نہیں بلکہ یکساں ماہانہ تنخواہ اور دیگر پیشہ وارانہ مراعات تک جا رہے گی۔