
فائرہ حفیظ
موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی سیلاب متاثرین کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔جہاں سیلاب متاثرین کو غذائی قلت کا سامنا تو ساتھ ہی ساتھ شدید سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا کسی عذاب سے کم نہیں۔
سندھ،خیبر پختونخوا اور پنجاب کے جن علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچائی اور لوگو ں کے گھر بار، زندگی کی جمع پونجی سیلابی پانی کی نذر ہو گیا۔لوگوں پر قیامت ٹوٹ پڑی. کئی لوگ اپنی جان سے گئے جو بچ گے وہ بے سرو سامانی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سیلاب تو تھم گیا لیکن سیلابی پانی کی وجہ سے پھیلنے والی تباہی ابھی ختم نہیں ہوئی، سیلاب متاثرین کی مشکلات میں کوئی خاطر خاہ کمی نہ ہو سکی۔سیلابی پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے بے شمار بیماریاں جنم لے رہی ہیں، جن میں ڈینگی سر فہر ست ہے۔جہاں لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، وہیں خواتین کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے کھڑے پانی کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں، جس سے حاملہ خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہو ئے ہیں۔ بیت الخلا کی کمی سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے، جو سب کی صحت کے لیے خطرہ ہے، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کا حال بہت ہی برا ہے. ہزاوں خواتین ایسی ہیں جو حا ملہ ہیں،خواتین کو حیض کے دنوں میں سینیٹری پیڈز مہیا نہیں ہے ،کچھ خواتین تو پلا سٹک بیگ تک استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
نوشہرہ کی سیلاب متاثراہ خا تون جمیلہ بی بی کا کہنا ہے کہ “جب سیلاب آیا تو سب بہا لے گیا، ہم اب یہاں خیمے میں رہتے ہیں۔مرد بھی ہمارے ساتھ رہتے ہیں بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے بہت دقت ہوتی ہے۔میں سات ماہ کی حا ملہ ہوں خوراک نا ملنے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئی ہوں۔سیلاب کے بعد بجلی نہ ہونے کے باعث یہاں کے ہسپتال میں کوئی خاص سہولت میسر نہیں ہے۔سیلاب کے باعث زیادہ تر خواتین کی ڈیلیوری رسائی نہ ہونے کے باعث دیہات میں ہی ہوئی ہیں۔”
یونیسف کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں حاملہ خواتین اور بچے خطرے میں ہیں جنہیں فوری طور پر امداد کی ضرورت ہےلیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔؟
ادویات کی قلت کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔حکومتی اور فلاہی اداروں نے کوشش تو کی لیکن آج بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں، جہاں نہ تو حکومتی نمائندگان اور نہ ہی فلاہی امدادی تنظیمیں پہنچ سکیں۔
اُس وقت کچھ صحافتی اداروں نے مختلف علاقوں میں جا کر آواز بلند کی تھی۔لیکن پھر کیا ہوا چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔…آج سیلاب متاثرین کے مسائل کے حل کیلئے کوئی آواز بلند نہیں کر رہا۔حالانکہ ابھی تک سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام مکمل نہیں ہوا،لوگ آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔لہذا صا حب حیثیت لوگ، حکومتی نمائیندگان اور فلاہی اداروں کو چا ہیے متاثرین کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہیں۔
مدد کریں ایسے لوگوں کی جو اللہ کے بعد امدادی اداروں اور حکو مت سے امید لگائے آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔
صحافتی اداروں کو چاہیے سیلاب متاثرین کے مسائل کے حل کے لیئے آواز بلند کریں تاکہ حکومت جلد از جلد سیلاب متاثرین سے کیئے گے وعدوں کو تکمیل تک پہنچائیں لیکن ان غریبوں کی کون سنے گا اور حکومتی دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔