nrm_1407229316-woman_crying

گھروں میں کام کر نے والی خواتین غیر مساوی رویوں کا شکار

ایمن سید

کالم نگار

کسی بھی معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی اور قوموں کے رویئے اہم کردار ادا کرتے ہیں. بد قسمتی سے ترقی کی دوڑ میں ہمارا معاشرہ جو کہ کلاس سسٹم کی تفریق میں بٹ چکا ہے، وہیں اس سسٹم کی پیداوار رویئے انسان کو ذہنی انتشار کی طرف بھی مائل کردیتے ہیں.

جس کی ایک مثال 45 سالہ ماریانا بھی ہے. اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی ماریانا شہر اقتدار کے پوش سیکٹر میں ایک گھر میں گزشتہ 4 سال سے ملازمہ ہے. شوہر کی وفات کے بعد سے ماریانا نہ صرف اپنی دو بیٹیوں کی کفالت ماں باپ بن کر رہی ہے بلکہ ان کے ہر خواب کی تعبیر بھی دیکھنا چاہتی ہے. زندگی کی مشکلات سے لڑتی ماریانا کا کہنا ہے کہ ڈیوٹی کے دوران شائد ہی دس منٹ کا آرام نصیب ہوتا ہو .دن بھر کام کی تھکاوٹ تو حوصلہ کم نہیں پڑنے دیتی مگر مالکان کے بے حس رویئے اس بات کا احساس ضرور دلاتے ہیں کہ ہم ان جیسے نہیں بلکہ کمتر ہیں. ساری فیملی کے کھانا کھا لینے کے بعد ماریانا کو بھی کھانا تو مل جاتا ہے مگر اس بات کی سخت نگرانی کی جاتی ہے کہ ماریانا کے کھانے کے برتن الگ ہوں اور ان برتنوں کی جگہ بھی کچن میں الگ سے مختص کی گئی ہے۔

ماریانا کا کہنا ہے کہ تنخواہ کا دیر سے ملنا یا باجی کی ڈانٹ پڑنا سب برداشت ہو جاتا ہے مگر کمتر سمجھے جانے کا تصور ذہن کو جنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے لیکن اپنے گھر کی دہلیز پہ پہنچتے ہی میں اپنے آنسو پونچھ لیتی ہوں کیوں کی مجھے اپنی دونوں بیٹیوں کو مضبوط بن کر زمانے سے لڑنا سکھانا ہے اور میرا مسکراتا چہرہ ہی ان دونوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔

محنت مزدوری کرنے والی اقلیتی برادری کی خواتین کے مسائل کے حوالے سے جب ہم نے معروف سماجی کارکن فرزانہ باری سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اقلیتی ملازمین خاص کر خواتین سے غیر مساوی سلوک اور بے حس رویے نہ صرف ذہنی انتشار بلکہ معاشرے میں بگاڑ کا باعث بھی بنتے ہیں اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے مسائل کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہے، نہ ہی ایسے کوئی ادارے بنائے گئے ہیں جس کے باعث ان محنت کش اور مجبور خواتین کو سخت رویوں تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کمتری کے احساسات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بلاشبہ نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے.

فرزانہ باری نے مزید کہا کہ انسانی حقوق اور خواتین کے لیے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو بھی اس مسئلے پہ بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہےـ .سماجی کارکنان کی آوازوں اور کاوشوں کے علاؤہ بطور شہری ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اپنے گھر کی سطح پہ بلکہ اپنے اطراف میں بھی ان پہلوؤں پہ توجہ دے تاکہ معاشرے میں ایک مثبت اور ذمہ دار شہری کے وجود کا اضافہ ہو۔

Tags: No tags

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *