Screenshot-2022-12-13-at-4.20.21-PM

اقلیتوں کو امتیازی سلوک اور ظلم کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے

صنم جونیجو

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اقلیتیں محفوظ نہیں رہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے تو دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں اقلیتوں پر ہمیشہ ظلم ہی ہوتا رہا ہے۔ پھر چاہے وہ انڈیا ہو، آسٹریلیا ہو، کینیڈا ہو یا پھر پاکستان ہو ،اقلیتیں ہمیشہ ظلم کا شکار رہی ہیں۔

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر حملوں میں ہندو، احمدی، شیعہ، اور عیسائی شامل ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کے سینکڑوں لوگ جانیں گواہ چکے ہیں۔ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو جبری تبدیلی مذہب اور شادیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

پاکستان میں ہندو خواتین کی جبری تبدیلی، عصمت دری اور زبردستی کی شادیاں پاکستان میں متنازعہ بن گئی ہیں۔ اقلیتوں پر حملوں کی وجہ سے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والی پالیسیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اقلیتوں کو اکثر امتیازی سلوک اور ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب کہ اقلیتوں کے حوالے سے آرٹیکلز یہ کہتا ہے کہ تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں۔ آرٹیکل کہتا ہے کہ ہر شہری کو “اپنے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

آرٹیکل 36 کے تحت اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، اس کے مطابق ریاست اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی، بشمول صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں ان کی مناسب نمائندگی دی جائے گی۔

اسلام کے مطابق ان کے تمام بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ پاکستان کا آئین پاکستان کے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اقلیتیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی عبادت گاہیں بنانے میں بھی آزاد ہیں۔

آرٹیکل 4 کے تحت ریاستیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جہاں ضرورت ہو اقدامات کریں گی کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے تمام انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو بغیر کسی امتیاز کے اور مکمل مساوات کے ساتھ مکمل اور مؤثر طریقے سے استعمال کر سکیں۔

کیا ان سب آرٹیکل کے باوجود ان پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ کیا قانون کے باوجود اقلیتیں پاکستان میں محفوظ ہیں یہ سب وہ سوالات ہیں جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

اس حوالے سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ملیر کی سینئر وکیل عابدہ پروین سے بات کی انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر کیسز زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور اغوا کے آتے ہیں جو کہ بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں لیکن ابھی تک ان کیسز کے نتیجے سامنے نہیں آئے۔ اقلیتیں پاکستان میں بلکل محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ایسے کیسز بھی دیکھے ہیں جن میں ان کے سامنے اقلیتوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور وہ ڈر کی وجہ سے کیسز وڈرو کروا لیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ ڈر کی وجہ سے کیسز کرواتے ہی نہیں ہیں اور اگر کوئی کروا لے تو بدقسمتی سے کیس آگے چل ہی نہیں پاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ لوگ ڈر کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

اس حوالے سے تھر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے ہم نے بات کی جس نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ اس کو زبردستی اغوا کرنے کے بعد دس دن اس کو قید میں رکھا گیا اس پر بہت زیادہ ظلم کیا گیا .اس کے بعد زبردستی میرا مذہب تبدیل کروایا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کو بہت زیادہ دھمکیاں دی گئیں کہ اگر میں نے بات نہ مانی تو اس گھر والوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ جب ہم نے اس حوالے سے اس بات کی تو اس وقت بھی وہ اپنے گھر والوں کو یاد کر کے بہت زیادہ افسرده ہو گئی۔ اس واقعے کو تقریبن دس سال ہو گئے ہیں۔

12055

چند لمحات سبیلا بی بی کے ساتھ

فائزہ حفیظ

کالم نگار

کبھی کبھی انسان کو اپنے لیے اپنے گھر کے لئے ایسے ایسے کام بھی کرنا پڑتے ہیں کہ جو کبھی انسان نے سوچا بھی نہیں ہوتا. ایسی ہی کہانی ہے سبیلا بی بی کی ہے.

سبیلا بی بی کی کہانی ان کی اپنی زبانی….

میرے خاندان میں پانچ افراد ہیں جن کی زمہ داری میرے کاندھوں پہ ہے. میں پانچ سال سے پنڈی کے علاقے چکلالہ میں برگر کا سٹال چلا رہی ہوں. اور الحمد للہ بہت اچھا گز بسر ہو جاتا ہے.سٹال پر میں میری ایک بیٹی اور بیٹا مل کر کام کرتے ہیں. ہم یہاں شام 4 بجے سے رات 10 بجے تک کام کرتے ہیں.یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے کہ روز مرہ کی مصروفیات کو اور گھر کے کام کاج کو ایک ساتھ لے کر چلنا…الحمد للہ! میں جس جگہ کھڑی ہوں. یہ ایک بہت ہی اچھا علاقہ ہے. لوگ میری بہت عزت کرتے ہیں.سب سے اچھی اور مزے کی بات جو انہوں نے بتائی کہ جب سبیلا بی بی نے یہ کاروبار شروع کیا تو آرمی کے کچھ بچوں نے انہیں سلوٹ کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی.

میں بہت فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں نے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ اپنی محنت سے اور ہنر سے کام کر کے اپنا پیٹ پال رہی ہوں اور مجھے یہ ہمت اور حوصلہ میری ضروریات دیتیں ہیں. میں کچھ پیسے اپنے کام میں خرچ کرتی ہوں اورباقی اپنے بچوں کے لیے. اللہ کا شکر ہے کہ اس آمدنی میں میرا گھر بہت اچھے طریقے سے چل رہا ہے.

میں نے کبھی خواہشات پورا کرنے کا نہیں سوچا کیوں کہ خواہشات تو انسان کی لاکھوں روپے سے بھی پوری نہیں ہوتیں. لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف مرد کی زمہ داری ہے گھر کو چلانا یا یوں کہہ لیجیے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو اس قابل نہیں سمجھتا جاتا کہ وہ بھی کچھ کرسکتی اپنے گھر کو چلا سکتی ہے اور شاید عورت مرد سے زیادہ اچھے طریقے سے مینیج کر سکتی ہے.

مجھے ہی دیکھ لیں میرا شوہر کینسر جیسے لاعلاج مرض میں مبتلا ہے. اپنے شوہر کا علاج اور بچوں کی پڑھائی کی زمہ داری اب میرے کاندھوں پر ہے اور میں اسے بہت بہترین طریقے سے نبھا رہی ہوں. میری خواہشات اور ضروریات اب صرف میرے شوہر کا علاج اور بچوں کی تعلیم ہے. کام کوئی بھی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا. جب ہم ہمت اور حوصلہ اور لگن کا دامن پکڑ کر کوئی کام کرتے ہیں تو کامیابی کو ہمارے قدم چومنے سے کوئی نہیں روک سکتا.

پیغام
.محنت کو اپنا ہنر بنائیں اور عزت والی زندگی کا انتخاب کریں

Screen-Shot-2018-05-14-at-5.01.07-AM

مرد بھی تشدد کا شکار ہوتے ہیں ؟؟؟

صباحت خان

صحافی | آئی بی سی اردو

پاکستان سمیت دنیا بھر میں مردوں پر تشدد ہونے کی حقیقت کو ماننے کا وقت ہو چکاہے۔ کئی صدیوں سے مرد ذات تشدد کی زد میں ہیں مگر خواتین کے تشدد مارچ ،عورت مارچ کے دباؤ کا شکار ہوکر مرد اپنے خلاف ہونے والے تشدد کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے یہ مانا بہت ضروری ہے کہ مرد بھی تشدد کا شکار ہوتے ہیں اس پرکوئی کیوں بات نہیں کرتا۔ سوچوں کے دروازے کھول دیجیئے خواتین پر تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے بہادر حضرات تشدد پر بات کر رہے ہیں ۔

تو چلیں آج ہم آدھی گواہی والی عورت پر تشدد کے حوالے سے نہیں بلکہ پوری گواہی والے مردوں کے دکھ بیان کرتے ہیں۔مرد تشدد کا شکار ہوتے ہیں مگر کس سے اور کیسے؟جی پریشان نہ ہو،مرد بھی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ابھی بیان کئے دیتے ہیں۔

مرد پر تشدد بچین سے ہی شروع ہو جاتا جب بیٹے کی پیدائش پر مٹھائی تقسیم کر کے خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔ بہن کی پلیٹ سے بوٹی بھائی کی پلیٹ میں ڈالی جاتی ہے۔جوانی میں تعلیم میں ناکامی اور بہن کی کامیابی پر باتیں سننے کو ملتی ہیں تشدد کی اقسام شروع ہو جاتی ہیں ۔

پھر آغاز ہوتا ہے شادی سے پہلے لڑکی ہاتھ نہ آئے یا انکار ہو جائے تو مرد تشدد کا شکارہونا شروع ہو جاتا ہے۔شادی ہو جائے وہ بھی محبت کی اور گرل فرینڈ کو معلوم ہو جائے تو تشدد کا شکار،پھر شادی کے بعد بیوی کے اخراجات یا بیوی کی تنخواہ ہاتھ نہ آئے تو تشدد۔ مرد اللہ کی جانب سے زمین پر سب سے بے بس مخلوق ہے جیسے تشدد برداشت کرنے کی ذمہداری سونپی گئی ہے۔

بچے ہو جائیں تو دودھ ،پیپرز کے اخراجات بیوی مانگ لے تو تشدد ،بیوی اپنے علاج کے لیے یا کچن میں راشن کے لیے خرچے کا بولے تو تشدد کا شکار،دوسری یا تیسری یا پھر چوتھی شادی مناظر عام پر آ جائے تو بے چارہ مرد تشدد کا شکار ہو جاتا ہے۔رک جائیں زرا صبر کریں ۔۔.ابھی تو مرد پر ہونے والی خاص تشدد کی اقسام پر بات کرنا باقی ہے۔

غیر ازدواجی تعلقات بیوی کے علم میں آ جائیں اور بیوی رو رو کر اپنی وفا اور محبت کا شور کریں تو تشدد، اس کے علاؤہ گرل فرینڈ کے علم میں دیگر افیئرز آجائیں تو پھر خود سوچیں تشدد کی اقسام ختم ہوجائیں گی مگر ان پر تشدد نہیں ۔۔۔۔۔۔مسکرائیں نہیں یہ ایک سنجیدہ اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔

اب بیان کرتے ہیں اگر بیوی ، ماں ، بہن کی جانب سے نمازپڑھنا، بسمہ اللہ کرنا، سونے جاگنے ،دن اور را ت کی تمیز کرنا، صفائی نصف ایمان ہے، پر عمل کرنے کا بولا جائے تو تشدد ۔چھوٹے چھوٹے بچوں اور بیوی کو وقت دینے اور ضروریات پورا کرنے کا بولا جائے تو تشدد ۔۔۔۔۔

بیوی اگر مرد کے گھر والوں کی جانب سے ذہنی،جسمانی اور معاشی بدسلوکی پر آواز اٹھائے تو مرد ہاتھوں اور پاؤں کے ساتھ زبان کا استعمال کر کے بھی تشدد سے نہیں بچ سکتا۔۔۔۔۔

ایک نمبر مخلوق مرد سکول کی شکل بھی نہیں دیکھ سکا اور بیوی کو معلوم ہو جائے خاوند تعلیم یافتہ نہیں تو تشدد ۔

اب آجاتا ہے ملازمت کی جگہ پر کسی خاتون کی تنخواہ زیادہ ہو جائے یا اچھے عہدے پر فائز ہو تو مرد پر تشدد کی انتہا ہو جاتی ہے۔ خواتین کا کسی مسئلہ پر اتفاق ہو جائے تو مرد تشدد کا ذکر کرنا بھی گوارہ نہیں کرتا ۔۔۔۔۔

معاشرے کا یہ وہ تلخ پہلو ہے جس پر مرد تشدد کا شکار ہو کر بھی انصاف کے حصول سے محروم ہے ،دیکھئے میں تھک گئی ہوں مرد کے خلاف اس ظالم معاشرے کی حقیقت بیان کرتے کرتے… قلم بھی رو رہا ہے، اس لیے مردوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے مردوں کی آواز کا ساتھ دیا تاکہ مردوں کو انصاف کی طاقت کا علم ہو سکے۔

مرد کے خلاف تشدد کرنے والی عورتوں سے انصاف کی اپیل ہے۔ مرد بے زبان اور مظلوم ہوتے ہیں ان کے مسائل کا حل آپ کی چپ میں ہے، برائے مہربانی اس بے زبان مخلوق کو سوچ سمجھ کو لگام دیں۔

girl (1)

اقلیتی برادری کی کوڑا اٹھانے والی خواتین کو درپیش مسائل اور کرسمس

اقراء خالد

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اکثر انسانی حقوق کا سب سے اہم پہلو مذہب ہوتا ہے. اس لیے مذہب کی بنیاد پر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں. ان میں زیادہ تر ان خواتین کا شمار ہوتا ہے جو گزر بسر کرنے کے لیے محنت مشقت کرتی ہیں.

ہمارے گھروں میں کوڑا اٹھانے والی خواتین جن کو ہمارا معاشرہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ہے، وہ کن مسائل سے گزر رہی ہے شاہد ان کو جاننے کے لیے ہمارے معاشرے نے زیادہ کوشش نہیں کی ۔ آج کے اس دور میں جہاں روز مرہ کے اخراجات اٹھانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، وہاں یہ خواتین مشکل سے اپنے گھروں کو چلا رہی ہیں ۔

ارم بی بی جو ایک مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہیں، لوگوں کے گھروں کا گندہ اٹھانا آسان کام نہیں لیکن زندگی گزارنے کے لیے یہ کرنا پڑ رہا ہے۔ جس میں نہ لوگوں کی طرف سے اچھا رویہ ہے اور نہ سی ڈے اے کی طرف سے لوازمات پورے کیے جا رہے ہیں. مہنگائی میں جو مشکل ہے سو ہے لیکن ہماری خود کی محنت نہیں مل رہی ہے۔ تین ماہ کام سے ہٹانے کے باوجود دو ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ۔ زندگی ایسے ہے جیسے کانٹوں پر چلنا اور اس لیے زندگی مشکل سے مشکل ہو رہی ہے. بچوں کو اچھی زندگی نہیں دے پا رہے نہ ہمیں بولنے کا حق ہے اور نہ مانگنے کا حق رکھتے ہیں، اگر بولتے ہیں تو جاب سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور اس لیے نوکری کے لیے چپ رہنا پڑتا ہے ۔

کلثوم بی بی بھی جو کے اسی کام سے وابستہ ہیں، وہ بھی محنت تو کر رہی ہے لیکن ان کو وہ سہولتیں میسر نہیں جو کسی بھی سرکاری ملازمت رکھنے والے کو ملتی ہے تنخواہیں تو ایک طرف کوڑا اٹھانے والی چیزیں بھی مسیر نہیں ہیں. تنخواہیں اور گھر کے حالات کی وجہ سے ہم اپنے کوڑا اٹھانے والاسامان بھی مانگ کر پورا کرتے ہیں. اس پر پھر لوگوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہم کوئی انسان نہیں بلکہ ناکارہ چیز ہو ں. یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ کرسمس جہاں خوشیاں اور خوداوند کی رحمت لے کر آتی ہے، وہاں ہم جیسے غریب لوگوں کو کہا ں نصیب ہوتی ہے. ان سب حالات میں ہم کیسے یہ کرسمس منا سکتے ہیں ، جہاں ہمیں دو ماہ سے سیلری نہیں ملی.ہماری تنخواہوں سے ہمارے گھر چلتے ہیں، وہ ہمیں مل نہیں رہی، ہماری زندگیاں انتہائی مشکل میں ہیں، بس خداوند سے دعا ہے ہماری وہ ہی مدد کرے ۔

کہتے ہیں کچھ لوگ سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوتے ان کو زندگی گزارنے کے لیے محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے تو ہمارے معاشرے کا یہ فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی معاشرے کا حصہ سمجھا جائے اور ایسے لوگوں کی خوشیوں میں ان کا ساتھ دیا جائے تاکہ وہ بھی خود کو معاشرے کا فرد سمجھیں۔

nrm_1407229316-woman_crying

گھروں میں کام کر نے والی خواتین غیر مساوی رویوں کا شکار

ایمن سید

کالم نگار

کسی بھی معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی اور قوموں کے رویئے اہم کردار ادا کرتے ہیں. بد قسمتی سے ترقی کی دوڑ میں ہمارا معاشرہ جو کہ کلاس سسٹم کی تفریق میں بٹ چکا ہے، وہیں اس سسٹم کی پیداوار رویئے انسان کو ذہنی انتشار کی طرف بھی مائل کردیتے ہیں.

جس کی ایک مثال 45 سالہ ماریانا بھی ہے. اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی ماریانا شہر اقتدار کے پوش سیکٹر میں ایک گھر میں گزشتہ 4 سال سے ملازمہ ہے. شوہر کی وفات کے بعد سے ماریانا نہ صرف اپنی دو بیٹیوں کی کفالت ماں باپ بن کر رہی ہے بلکہ ان کے ہر خواب کی تعبیر بھی دیکھنا چاہتی ہے. زندگی کی مشکلات سے لڑتی ماریانا کا کہنا ہے کہ ڈیوٹی کے دوران شائد ہی دس منٹ کا آرام نصیب ہوتا ہو .دن بھر کام کی تھکاوٹ تو حوصلہ کم نہیں پڑنے دیتی مگر مالکان کے بے حس رویئے اس بات کا احساس ضرور دلاتے ہیں کہ ہم ان جیسے نہیں بلکہ کمتر ہیں. ساری فیملی کے کھانا کھا لینے کے بعد ماریانا کو بھی کھانا تو مل جاتا ہے مگر اس بات کی سخت نگرانی کی جاتی ہے کہ ماریانا کے کھانے کے برتن الگ ہوں اور ان برتنوں کی جگہ بھی کچن میں الگ سے مختص کی گئی ہے۔

ماریانا کا کہنا ہے کہ تنخواہ کا دیر سے ملنا یا باجی کی ڈانٹ پڑنا سب برداشت ہو جاتا ہے مگر کمتر سمجھے جانے کا تصور ذہن کو جنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے لیکن اپنے گھر کی دہلیز پہ پہنچتے ہی میں اپنے آنسو پونچھ لیتی ہوں کیوں کی مجھے اپنی دونوں بیٹیوں کو مضبوط بن کر زمانے سے لڑنا سکھانا ہے اور میرا مسکراتا چہرہ ہی ان دونوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔

محنت مزدوری کرنے والی اقلیتی برادری کی خواتین کے مسائل کے حوالے سے جب ہم نے معروف سماجی کارکن فرزانہ باری سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اقلیتی ملازمین خاص کر خواتین سے غیر مساوی سلوک اور بے حس رویے نہ صرف ذہنی انتشار بلکہ معاشرے میں بگاڑ کا باعث بھی بنتے ہیں اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے مسائل کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہے، نہ ہی ایسے کوئی ادارے بنائے گئے ہیں جس کے باعث ان محنت کش اور مجبور خواتین کو سخت رویوں تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کمتری کے احساسات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بلاشبہ نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے.

فرزانہ باری نے مزید کہا کہ انسانی حقوق اور خواتین کے لیے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو بھی اس مسئلے پہ بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہےـ .سماجی کارکنان کی آوازوں اور کاوشوں کے علاؤہ بطور شہری ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اپنے گھر کی سطح پہ بلکہ اپنے اطراف میں بھی ان پہلوؤں پہ توجہ دے تاکہ معاشرے میں ایک مثبت اور ذمہ دار شہری کے وجود کا اضافہ ہو۔

media

جینڈر پالیسی کا نفاذ میڈیا ہاوسسز کے لیے ناگزیر

فوزیہ کلثوم رانا

کالم نگار

جینڈر پالیسی تومیڈیا ہاوسسز یا دیگر اداروں میں نافذالعمل نہیں ہے مگر پاکستان میں اب خواتین کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ پیشہ وارانہ امور میں ساتھ دینا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں خواتین جس طرح ہر شعبے میں نام کما رہی ہیں اسی طرح شعبہ صحافت میں بھی اب خاصی خواتین نام بنا رہی ہیں ۔ چاہے کیمرہ مین ہوں، فو ٹو جرنلسٹس ہوں، وڈیو ایڈیٹرز ہوں، سب ایڈیٹر ہوں، اخبار یا ٹی وی کی رپورٹرز ہوں یا پھر اینکرز ہوں ، وی لاگرز، یو ٹیوبرز ،ویب سائیٹ ایڈیٹر یا پرڈیوسرز ، اب خواتین ان تمام شعبوں میں نام کما رہی ہیں ۔

پاکستان میں ایک محتاط اندازے کےمطابق مختلف اداروں میں 31 ہزار 281 خواتین افسران ہیں، ایک ہزار 246 مرکزی سیکریٹریٹ میں ملازمت پیشہ ہیں ،جبکہ 30 ہزار 35 خواتین منسلک محکموں اور ذیلی دفتروں میں موجود ہیں۔ پنجاب میں 73.68 فیصد، سندھ میں 12.76 فیصد، خیبر پختونخوا میں 7.9 فیصد اور بلوچستان میں 1.93 فیصد خواتین برسرملازمت ہیں۔ اسی طرح وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں 1.36 فیصد اور گلگت بلتستان میں 0.56 فیصد خواتین کے لیے مخص ہے۔عوامی دفاتر میں جنسی امتیاز سے متعلق عمومی طور پر خواتین کو ملازمت پر نہ رکھنے سے متعلق ایک سوچ غالب ہے کہ خواتین ملازمت جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ ملک میں متعدد خواتین افسران (گریڈ 16 اور 17) بطور استاد، ماہر نفسیات اور نرس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اسی طرح شعبہ صحافت میں بھی ہر صوبے میں خواتین کا 10 اور اقلتیوں کا 5 فیصد کوٹہ مختص ہے جبکہ سی ایس ایس کی 100 نشستوں پر 2016 سے اب تک کسی خاتون اور اقلیت کو ملازمت نہیں مل سکی۔

شعبہ صحافت میں یہ تاثر عام ہے کہ خواتین مشکل موضوعات اور بیٹس کی کوریج نہیں کرسکتیں ہیں۔ اس وجہ سے صحافت میں خواتین کو قدرے آسان سمجھی جانے والی بیٹس تک محدود کیا جاتاہے۔ نیوز روم میں عموما رپورٹر خواتین کو موسم، صحت اور تعلیم کے شعبوں، شوبز یا سٹی رپورٹنگ کی کوریج یا پھر زیادہ سے زیادہ مظاہرے کور کرنے کی بیٹ دے دی جاتی ہے۔ یہ ایک خود ساختہ پیکج ہے یعنی جو لڑکی موسمیات کور کرے گی وہی صحت، انسانی حقوق، غیر سرکاری تنظیموں اور تعلیم کے معاملات کی کوریج بھی کرتی ہے بطور خاص بر صغیر میں میڈیا اور کئی ترقی پزیر ممالک میں مرد سیاست، عدالت اور کرکٹ پرائم ٹائم پر قابض رہتے ہیں۔ ایسے میں صحت، تعلیم اور موسم کی خبریں غیر اہم تصور کی جاتی ہیں اور ان خبروں کو فائل کرنے والی خاتون صحافی خبروں سے بھی زیادہ غیر اہم ہیں، حالانکہ اب یہ صورت حال اب بدل رہی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خاتون رپورٹرز کی خبروں سے زیادہ ان کے کپڑوں، میک اپ، انداز و اطوار پر کمنٹس کیے جاتے ہیں اور نوجوان لڑکیوں کو چاہے وہ اچھی رپورٹنگ نہ بھی کر سکیں بآسانی سکرین مل جاتی ہے اور بہت ساری قابل صحافی خواتین کو بڑھتی عمر یا شادی ہونے کی وجہ سے میڈیا کے ادارے نوکری پہ نہیں رکھتے یا بہانے بازی سے نکال دیتے ہیں۔ بعض اوقات کامیاب خواتین صحافیوں کی خبروں اور تحریروں کو بھی دقیانوسی سوچ کے تحت ان کے مرد دوستوں کی مرہون منت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اگر کسی خاتون صحافی کا شوہر یا بھائی صحافی ہے تو خاتون کی کامیابی کا سہرا گھر کے مرد کو دیا جاتا ہے۔ ایسی صحافی خاتون کی قابلیت کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

سئینر صحافی شہناز تاری نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست، میڈیا ہاوسز، سول سوسائٹی اور پریس کلبوں کو اس حوالے سے تربیت دی جائے کہ کس طرح خواتین کی شمولیت کو بڑھایا جاسکتا ہے اور جینںڈر پالیسی کو اگرمتعارف کروادیا جائے تو اس سے نہ صرف کام کا ماحول سازگار ہوجائے گا بلکہ آئےروز جنسی ہراسگی، کم تنخواہوں اور صحافی خواتین کی امتیازی سلوک کی شکایات کا بھی ازالہ ہوسکے گا۔ انہوں نے مزید کہا ابھی بھی خواتین ذہنی تشدد یا آن لائن ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں تو انہیں کس طرح تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے اس پہ بات ہونی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ہاوسز میں صحافی خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر زیادہ سے زیادہ خواتین کو مواقع دینے چاہئیں، تاکہ وہ اپنے ماتحت کام کرنے والی خواتین کے مسائل کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ صحافی خواتین کے کلیدی کردار کو بڑھانے کے لئے پریس کلبز اور یو نینز کو بھی ریفارمز لانے چاہیئے وہی چہرے بار بار عہدے بدل بدل کر سامنے لائے جاتے ہیں مگر اس سے صحافی خواتین کی حقیقی ترجمانی نہیں ہو پاتی ایسا محسوس ہوتا ہے چند لوگوں کو ہی بار بار نوازاجا رہا ہے ۔

نیلم ارشد جو کورٹ رپورٹنگ کی ماہر ہیں انہوں نے بتایا کہ ان جیسی اور بھی بہت ساری قابل خواتین صحافی ہیں جو نیوز روم میں مرد ساتھیوں اور سینیئرز کی مرضی سے کام کرتی ہیں۔ نیلم کئی برسوں سے کورٹ کی رپورٹننگ کر رہی ہیں اور اپنا لوہا منوا چکی ہیں انہوں نے ہائی پروفائیل کیسسز کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے رپورٹنگ کی ہے مگر ان کے مطابق صحافی خواتین پوری لگن محنت اور بہترین کاکردگی کے باوجود بہت سارے اداروں میں کئی برسوں سے آج بھی ’اسٹیپنی رپورٹر‘ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کو تجربے اور قابلیت کی بناء پہ ترقی ملنی چاہئے۔ بڑی خبریں نکال لانے والی خاتون صحافیوں پر عجیب مضحکہ خیز الزامات لگنے عام ہیں۔ یہاں تک کہ کورٹ رپورٹنگ کرنے والی خواتین کو دور جدید میں بھی حیرت سے پرکھا جاتا ہے یہ جملہ عام سننے کو ملتا ہے ہائے آپ کورٹ بھی کور کرتی ہیں۔ خبر خود بناتی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہا کہ جینڈر پالسی کود اگر یقینی بنا دیا جائے تو صحافی خواتین کے مسائل نوے فیصد حل ہوجائیں گے پھر ان کے ساتھ غیر پیشہ وارانہ سلوک کی روکنے تھام میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ ورکنگ کنڈیشنز میں بہت حد تک بہتری ممکن ہوجائے گی۔

نجی ٹی وی کی رپورٹر صباءبجیر نے بتا یا کہ آجکل تو سوشل میڈیا کا دور ہے ایک بھی تصویر وائرل ہوگئی تو کس کس کو جواب دیتی پھریں گی اور دوسری جانب خواتین صحافیوں کو عجب مشکل یہ درپیش ہے کہ اگر وہ اپنے سورس کے ساتھ خبر کے سلسلے میں مل لیں تب بھی طرح طرح کے خدشات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاتون رپورٹرز کی خبروں سے زیادہ ان کے کپڑوں، میک اپ، انداز و اطوار پر کمنٹس کیے جاتے ہیں۔ جو کہ نہ صرف صنفی امتیاز ہے بلکہ ہمارے کام کو کسی اور کے پلڑے میں تول دینا بھی ہے۔ اور ہمارے معیاری کام کو بھی اس طرح سے نہیں سراہا جاتا ہے۔ اور اگرادارے جینڈر پالیسی ترتیب دیں اور یکساں معیار پہ کام کے پیمانے ہوں تو ورکنگ صحافی خواتین کے لیے حالات سازگار بنانے میں مدد مل سکتی ہے.

ؑعکس این جی او کی سربراہ تسنیم احمر جو صحافی خواتین کے مسائل پہ کام کرنے والے ادارے کی سربراہی کرتی ہیں انہوں نے صحافی خواتین کے ساتھ میڈیا ہاﺅسسز اور دیگر پلیٹ فارمز پہ صنفی امتیاز کی وجہ ہمارے اس پدر شاہی نظام اور فرسودہ سوچ کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو پاورفل بیٹس پہ کام نہ کرنے دینا اسی سوچ کی عکاسی ہے کہ یہ نازک ہیں اور کمزور ہیں حالانکہ اب حالات بدل رہے ہیں اور صحافی جنگ کی رپورٹنگ ہو یا قدرتی آفات ہر میدان میں کوریج کرتی نظر آرہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ خاص مردانہ سوچ ہے جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر صحافی خواتین سامنے آگئیں تو اپنی قابلیت کی بناپر یہ اپنا نمایاں مقام حاصل کر لیں گی۔ تسنیم احمر نے کہا کہ صحافی خواتین کو ہمت باندھے رکھنی ہے۔ جم کہ ڈٹی رہیں اور ایسا گروپ تشکیل دیں جو لوگ صنفی امتیاز کے حامی نہ ہوں وہ صحافی خواتین کے لئے یہ ایک بڑی سپورٹ ہو سکتے والا ہیں۔

میڈیانا ہاؤسسز میں پایا جانے والا صنفی امتیاز نہ صرف صحافی خواتین کے با اختیار کردار کی نفی کرتا ہے بلکہ اس سے صدیوں پرانی وہی سوچ بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ صحافی خواتین کی بھی یکساں مواقع حاصل کرنے کی جنگ اتنی ہی کٹھن ہے جتنی کسی وکیل, جج, نرس یا ڈاکٹر کی ہے۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ میڈیا ہاوسسز میں جینڈر پالیسی لاگو کروانے کی تگ وہ دو شروع ہوچکی ہے اور یہ صرف یکساں شعبوں میں رپورٹنگ تک نہیں بلکہ یکساں ماہانہ تنخواہ اور دیگر پیشہ وارانہ مراعات تک جا رہے گی۔

WhatsApp-Image-2022-09-12-at-11.03.23-AM

موسم سرما کی آمداور سیلاب متاثرین کے بڑ ھتے مسائل!!!

فائرہ حفیظ

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی سیلاب متاثرین کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔جہاں سیلاب متاثرین کو غذائی قلت کا سامنا تو ساتھ ہی ساتھ شدید سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا کسی عذاب سے کم نہیں۔

سندھ،خیبر پختونخوا اور پنجاب کے جن علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچائی اور لوگو ں کے گھر بار، زندگی کی جمع پونجی سیلابی پانی کی نذر ہو گیا۔لوگوں پر قیامت ٹوٹ پڑی. کئی لوگ اپنی جان سے گئے جو بچ گے وہ بے سرو سامانی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

سیلاب تو تھم گیا لیکن سیلابی پانی کی وجہ سے پھیلنے والی تباہی ابھی ختم نہیں ہوئی، سیلاب متاثرین کی مشکلات میں کوئی خاطر خاہ کمی نہ ہو سکی۔سیلابی پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے بے شمار بیماریاں جنم لے رہی ہیں، جن میں ڈینگی سر فہر ست ہے۔جہاں لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، وہیں خواتین کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے کھڑے پانی کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں، جس سے حاملہ خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہو ئے ہیں۔ بیت الخلا کی کمی سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے، جو سب کی صحت کے لیے خطرہ ہے، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کا حال بہت ہی برا ہے. ہزاوں خواتین ایسی ہیں جو حا ملہ ہیں،خواتین کو حیض کے دنوں میں سینیٹری پیڈز مہیا نہیں ہے ،کچھ خواتین تو پلا سٹک بیگ تک استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

نوشہرہ کی سیلاب متاثراہ خا تون جمیلہ بی بی کا کہنا ہے کہ “جب سیلاب آیا تو سب بہا لے گیا، ہم اب یہاں خیمے میں رہتے ہیں۔مرد بھی ہمارے ساتھ رہتے ہیں بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے بہت دقت ہوتی ہے۔میں سات ماہ کی حا ملہ ہوں خوراک نا ملنے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئی ہوں۔سیلاب کے بعد بجلی نہ ہونے کے باعث یہاں کے ہسپتال میں کوئی خاص سہولت میسر نہیں ہے۔سیلاب کے باعث زیادہ تر خواتین کی ڈیلیوری رسائی نہ ہونے کے باعث دیہات میں ہی ہوئی ہیں۔”

یونیسف کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں حاملہ خواتین اور بچے خطرے میں ہیں جنہیں فوری طور پر امداد کی ضرورت ہےلیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔؟

ادویات کی قلت کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔حکومتی اور فلاہی اداروں نے کوشش تو کی لیکن آج بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں، جہاں نہ تو حکومتی نمائندگان اور نہ ہی فلاہی امدادی تنظیمیں پہنچ سکیں۔

اُس وقت کچھ صحافتی اداروں نے مختلف علاقوں میں جا کر آواز بلند کی تھی۔لیکن پھر کیا ہوا چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔…آج سیلاب متاثرین کے مسائل کے حل کیلئے کوئی آواز بلند نہیں کر رہا۔حالانکہ ابھی تک سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام مکمل نہیں ہوا،لوگ آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔لہذا صا حب حیثیت لوگ، حکومتی نمائیندگان اور فلاہی اداروں کو چا ہیے متاثرین کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہیں۔

مدد کریں ایسے لوگوں کی جو اللہ کے بعد امدادی اداروں اور حکو مت سے امید لگائے آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔

صحافتی اداروں کو چاہیے سیلاب متاثرین کے مسائل کے حل کے لیئے آواز بلند کریں تاکہ حکومت جلد از جلد سیلاب متاثرین سے کیئے گے وعدوں کو تکمیل تک پہنچائیں لیکن ان غریبوں کی کون سنے گا اور حکومتی دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔

WhatsApp-Image-2022-10-03-at-15.11.33

کیا بچے کو گود میں اٹھائے گائیکی کرنے والے مسیحی گلوکارہ ثنا عمانوئل اپنا گھر بنا سکے گی؟

عمرانہ کومل

اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں اپنی گائیکی کے ذریعے مداحوں سے داد پانے والی ثنا عمانوئیل اپنے بچے کو گود میں اٹھائے، اپنے شوہر کے ہمراہ گائیکی کے سازوسامان کو ترتیب دیتی ہیں تو وہاں موجود ہر فرد انہیں قدر کی نگاہ دیکھتا ہے۔ اس میں ماں کی ممتا نظر آتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ایک ماں اپنی اولاد کی خاطر محنت کر رہی ہے۔ آنکھوں میں گھر بنانے کے خواب سجائے اپنے بچے کو تھپکی دیتے ہوئے ثنا جب گاتی اور مسکراتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے مامتا اپنی اولاد کو سکھ چین کی زندگی دینے کا خواب پورا کر رہی ہو۔
ثنا بتاتی ہیں کہ وہ 25 سال سے گائیکی کر رہی ہیں۔ انہوں نے مختلف ہوٹلز میں کام کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک فنکار کا کام لوگوں کو خوشیاں دینا ہے اسی وجہ سے فنکار عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں اور داد کے ادا کئے جانے والے دو بول ان کے اطمینان کیلئے کافی ہوتے ہیں۔
ثنا بتاتی ہیں کہ کورونا 19 سے قبل ان کی شادی ہوئی جب وبا آئی تو وہ امید سے تھیں ۔ تاہم روزگار کے خاتمے کے باعث ان کیلئے حالات مشکل ہو گئے، جمع پونجی خرچ ہوگئی تھی۔ مکان کے کرایے، یوٹیلٹی بلز سمیت ایک بچے کی دنیا میں آمد اور اخراجات کی بھرمار نے انہیں بہت پریشان کر دیا تھا تاہم اب ان کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔
ثنا بتاتی ہیں کہ کام کے اوقات میں بچہ ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں ملتی لیکن جہاں وہ اب کام کر رہی ہیں تو وہاں بچہ ساتھ رکھنے کی اجازت ملی تو ان کے دل سے دعا نکلی۔ ثنا کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر بھی ان کے ساتھ گٹار پرفارم کرتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی کام کرتے ہیں تو زندگی کا پہییہ چلتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے اخراجات ابھی بھی پورے نہیں ہو رہے تاہم وہ محنت کر رہے ہیں۔

ثنا بتاتی ہیں کہ وبا کے دوران حکومت سمیت کسی سطح پر کوئی مدد نہیں ملی۔ اور نہ ہی مقامی سطح پر فنکاروں کی کوئی ایسی تنظیم ہے جو ان کے مسائل اُجاگر کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر انسان کو اپنا مسئلہ بڑا محسوس ہوتا ہے لیکن انہیں لگتا ہے کہ ان کا اپنا گھر نہ ہونا ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کا ذاتی گھر ہو، مہنگائی سے نجات ملے اور ان کی اولاد کو بڑے ہو کر ایسے مسائل کا سامنا نہ ہو جن مسائل کا انہیں سامنا ہے۔
ثنا حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ حکومت کو چاہئیے کہ وہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کیلئے بنائی جانے والی ہاوسنگ کالونیوں کی طرز پر مقامی افنکاروں کے لئے آرٹسٹ ٹاؤن بنائے جہاں انہیں مفت گھر ملیں یا ایسی اقساط ہوں کہ ہم جیسے محنت کشوں کو ساتھ ہی قبضہ ملے اور ساتھ ہی ہم وہاں رہتے ہوئے اقساط جمع کروائیں کرائے کے مکان سے بچ جائیں۔ اس سے فنکار ایک جگہ اکٹھے رہ سکیں گے۔ اس کے علاوہ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے نادار فن کاروں کو ماہانہ وظیفہ فراہم کیاجائے۔
ثنا کہتی ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کے بغیر کچھ نہیں اوراسی طرح وہ بھی پاکستان کا اثاثہ ہیں۔
ثنا بتاتی ہیں کہ ملکہ ترنم نور جہاں ان کی آئیڈیل ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ثنا کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابرارالحق، فریحہ پرویز، شبنم مجید، حدیقہ کیانی سمیت متعدد نامورگلوکاروں کے ساتھ پرفام کیا اور ان سے بہت سیکھا۔ ان کے رائلٹی شوز میں مقامی فنکاروں کو پرفارم کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مقامی فن کاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی ایوارڈز کا اعلان کیا جانا چاہئیے کیونکہ وہ بھی فن کی خدمت کر رہے ہیں۔
ثنا اس بات سے رنجیدہ ہیں کہ ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن میں فن کاروں کو انتہائی کم معاوضہ ملتا ہے جس سے پیٹرول کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے اس لئے مقامی فنکار وہاں پرفارم کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ریڈیو اور ٹی وی نے ان کے فن کی پذیرائی کرنی ہے تو وہ معاوضہ بڑھائیں۔
ثنا کا ماننا ہے کہ فن کار ٹیلنٹ لیکر پیدا ہوتے ہیں لیکن ایک اچھا استاد اس کا فن کو نکھارتا ہے اور ان کے استاد سموئیل گل تھے جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔
ثنا کا مطالبہ ہے کہ فنکار کمیونٹی حساس کمیونٹی ہے وہ اپنے معاشی مسائل نہیں بتاتے لیکن حکومت کو ان کی خود داری کا بھرم رکھنا چاہئیے اور ان کی مشکلات سمجھتے ہوئے ایسی پالیسی بنائے کہ ہم اپنے ملک اور فن کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی کفالت اچھے طریقے سے کر سکیں۔
اسلام آباد کے مقامی ہوٹل کے منیجر کا کہنا ہے کہ ہم ثنا کی اپنی اولاد کے لئے قربانیوں کی قدر کرتے ہیں ہم بچہ ساتھ لانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ اولاد ماں کی پہلی ذمہ داری ہوتی ہے

Senate-of-Pakistan

اقلیتی برادری کی ایوان بالا میں نمائندگی بڑھانے کے لئے جدوجہد

وجیہہ اسلم

پاکستان کی اقلیتوں کے بنیادی مسائل اور انکے حل کے لئے ایک اہم پہلو غیر مسلم نمائندوں کی سیاسی وابستگیوں کو بالا تر رکھتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دینا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا کہ انکے نمائندے اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی درست ترجمانی کر سکیں۔

ایسے میں یہ اہم سوال ہے کہ کیا اقلیتی برادری مشترکہ رائے دہندگان کے نظام سے مطمئن ہے یا مذہبی اقلیتیں جد اگانہ طریق انتخاب کو بہتر قرار دیتی ہیں؟

آئین پاکستان کی دفعہ 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لئے دس نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ اس شق کی مزید وضاحت کے لئے آئین میں لکھا گیا ہے کہ “قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور وفاقی دارالحکومت کے لئے متعین کی جائیں گی”۔

پاکستان کے انتخابی نظام کے حوالے سےاقلیتی برادری کی جانب سے اٹھایا گیا اہم موضوع انتخابی طریقہ کار ہے جس میں مشترکہ رائے دہند گان نظام اور جداگانہ انتخابی نظام زیر بحث رہتا ہے۔مذہبی اقلیتوں کے لئے دونوں انتخابی نظام کب اور کیسے رائج ہوئے؟ زیر نظر رپورٹ میں اس پر بحث کی گئی ہے۔

عام انتخابات کی بات کریں تو 7 دسمبر 1970 ء کے انتخابات ایک ووٹ کی بنیاد پر ہوئے۔ ایک ووٹ سے مراد مشترکہ انتخابی نظام، جس میں مسلم امیدوار اور غیر مسلم امیدوار کو حلقے میں ایک ہی بیلٹ پیپر کے ذریعے منتخب کرنا ہے۔ اس انتخاب میں صوبائی اسمبلی سے رانا چندر سنگھ اور قومی اسمبلی کے لئے راجہ تری دیو کے علاوہ کوئی اقلیتی امیدوار انتخاب نہ جیت سکا تھا۔

21نومبر 1975ء کو آئین میں چوتھی ترمیم کے ذریعے اقلیتی برادری کے لئے قومی اسمبلی میں 6 نشستیں مختص کی گئیں۔ عام انتخابات 1977ء میں ان مخصوص نشستوں پر 4 مسیحی، ایک ہندو اور ایک پارسی ممبران قومی اسمبلی بنے۔
1970ء اور 77 کے عام انتخابات مشترکہ انتخابی نظام کے تحت ہوئے جبکہ جنرل ضیا الحق نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جداگانہ انتخابات کا نظام رائج کیا۔

جد اگانہ طریقہ انتخاب میں مسلم امیدواروں کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کے امیدوار بھی اپنے حلقوں میں بطور امیدوار حصہ لیتے تھے اور اقلیتی برادری کی بھی الگ سے ووٹر لسٹ تیار ہوتی تھی۔

1985 سے 1997ء پانچ جنرل الیکشنز میں ووٹزر مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم ہوگئے جس میں مذہبی اقلیتیں اپنے نمائندے کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتے تھے ۔

مذہبی اقلیتوں کے لئے ایک بار پھر 30 سال کے بعد الیکٹرول سسٹم تبدیل ہوا، جب سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے مذہبی اقلیتی برادری کے لئے 2000 میں ایک بار پھر مشترکہ انتخابی نظام متعارف کروایا ۔

“ون بیلٹ ” سے مراد اقلیتی برادری الگ سے اپنے کسی امیدوار کو ووٹ کاسٹ نہیں کرے گئی بلکہ الیکشن کمشین کی طرف سے دئے گئے سفید اور سبز رنگ کے بلیٹ پیپر میں سے سفید قومی اسمبلی کے امیدوار جبکہ سبز رنگ کے بلیٹ پیپر کو اپنے ہی حلقے ایم پی اے کے انتخاب کے لئے کاسٹ کرے گیں۔

مذہبی اقلیتوں نے اس انتخابی سسٹم پر اپنے تحفظات کا اظہار کیاکہ مشترکہ رائے دہندگان کا نظام “مسلم سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو اپنے پسندیدہ اقلیتی رہنماؤں کے انتخاب کے ذریعے اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر لے کر آئیں۔

جس میں اہم نقطہ یہ ہےکہ اس میں اکثر مالی پیش کش کی بدولت نمائندگی کا حق حاصل کرتے ہیں جو کہ اقلیتی برادری کے ساتھ زیادتی ہے۔

جدوجہد میں گزرے سال

مذہبی اقلیتوں کی انتخابی جدوجہد کا جائزہ لیں توقیام پاکستان کے بعد 1951ء میں پنجاب کے صوبائی انتخابات میں چودھری چندو لعل منتخب ہو کر ڈپٹی سپیکر بنے، جبکہ بی ایل رلیا رام ،مسز ایس پی سنگھا، فضل الہی اراکین پنجاب اسمبلی رہے۔

اپریل 1952 میں اسمبلی نے نئے انتخابی قانون کو بالغ رائے دہی کی بنیاد اور اقلیتوں جن میں ہندو، بدھوں اور مسیحیوں کیلئے جداگانہ انتخابات کو آئینی تحفظ دیا گیا۔

جداگانہ انتخابات جن کا آغاز 1909ء کی منٹو مارلے اصلاحات سے ہوا تھا نو آبادیاتی حکمرانوں کیلئے عوام کو ہندوؤں، مسلمانوں، پارسیوں اور بدھ مت کے پیروکاروں میں تقسیم کرنا تھا۔

جس کے تحت مذہبی اقلیتیں اپنے اپنے مذہب کے مخصوص حلقوں ہی میں الگ الگ ووٹ ڈال سکتی تھیں۔

انگریزوں نے اس نظا م کو 1919ء کی اصلاحات میں مزید فروغ دیا اور 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں بھی نہ صرف ان نظام کو برقرار رکھا بلکہ مذہبی تقسیم کو مزید فروغ دیا۔

رکن قومی اسمبلی اور بانی ہندو کونسل ڈاکٹر رمیش کمار نے انٹرویو میں بتایا کہ سندھ میں ہندو برادری میں تو اضافہ ہو رہا ہے تو اس لحاظ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہماری مخصوص نشستوں میں اضافہ ہو نا چاہے۔

ہم جنرل الیکشن میں مشترکہ رائے دہندگان کے طریقہ کار سے مطمئن ہیں مگر قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے طریقہ کار سے ملک کے جمہوری اداروں کو ہمیں مطمئن کرنا چاہیے۔ قانون کے مطابق ملازمتوں میں اقلیتوں کے لئے 5 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے اس قانون کا اطلاق اب اسمبلیوں میں نمائندگی پر بھی جانا چاہیے۔

اگر ایسا ہو جائے تو اس وقت قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 272 ہے اگر 5 فیصد کوٹے کا حساب لگایا جائے تو قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی مخصوص نشستیں 10سے بڑھ کر 14 ہو جائے گی۔ اس نقطے کو لے کر قومی اسمبلی میں نے بل بھی پیش کیا گیا ہے تاکہ مذہبی اقلیتیں اپنے اپنے مسلک کے لوگوں کے مسائل اسمبلی میں اور موثر طریقے سے پیش کر سکیں۔

اسطرح چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بھی 5 فیصد کے تناسب سے اقلیتوں کی نشستوں کی تعداد بڑھ سکتیں ہیں۔ دوسرا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر آنے والے ممبران کے نام سیاسی جماعتوں کی طرف سے نامزد نہیں ہونے چاہیے بلکہ ایک انتخابی عمل کے تحت آنے چاہیے۔ جنرل الیکشن میں ہر حلقے میں تمام ووٹر ایک رنگین بلٹ پیپر پر اقلیتی امیدوار کو بھی ووٹ کاسٹ کرے۔

اگرچہ یہ آبادی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے تمام حلقوں میں ہونا ممکن نہیں مگر جن حلقوں میں اقلیتی برادری کا کی تعداد زیادہ ہے ان حلقوں میں اسی ایک تجربے کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا تناسب صوبوں میں آبادی کے تناسب یا رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد پر کیا جا سکتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے کیا جائے تو 3 لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر ہونا چاہیے۔

مارشل لاء کے ادوار میں مذہبی اقلیتوں کے بدلتے قوانین

جنرل ایوب خان نے فروری 1960ء میں پاکستان میں ایک آئینی کمیشن مقرر کیا۔ اس کمیشن نے ایک مشترکہ اور جداگانہ رائے دہندگان کے ایشو پر سوال نامے کے ذریعے تمام اسٹیک ہولڈرز کو کمیشن کاحصہ بنایا۔ کمیشن رپورٹ میں 55.1 فیصد نے اقلیتوں کیلئے کوئی بھی نشست مقرر کرنے کے بغیر مخلوط طریقہ انتخابات کی حمایت کی جب کہ 2.9 فیصد مخلوط طریقہ انتخاب اور کچھ نشستیں اقلیتوں کیلئے مختص کرنے کے حق میں تھے۔

مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں مشترک رائے دہندگان 0.2 فیصد کے تناسب سے کروانے کے لئے جداگانہ انتخابات کے حق میں تھے۔ دوسری طرف 40.2 فیصد عوام پورے ملک میں جداگانہ رائے دہندگان چاہتے تھے جب کہ 0.9 فیصد اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں اور جداگانہ رائے دہندگان کا مطالبہ کر رہے تھے جبکہ 0.7 فیصد اقلیتوں کو کوئی بھی حق دینے کی حمایت میں نہیں تھے۔

مشرقی اور مغربی پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے مشترکہ اور جداگانہ رائے دہندگان کا مطالبہ کرنے کی اوسطاً شرح میں تناسب تھا۔

جنرل ضیاء الحق دور 1947ء سے 1956ء تک پاکستان کے آئین کی ترتیب و تدوین کا دور رہا۔

آئین جمہوریہ پاکستان 1956ء میں طریق انتخاب مخلوط یا جد اگانہ کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ نہ ہو سکا۔

جب حسین شہید سہروردی وزیر اعظم پاکستان بنے تومسیحی نمائندوں مسٹر سی ای گبن،مسٹر ایس پی سنگھا اور چودھری چندولال نے مخلوط طریق انتخاب لے خلاف رٹ درخواست دائر کی جس کی پیروی پاکستان میں مشہور قانون دان اے کے بروہی نے کی۔

1970ء میں چیف مارشل لاء انڈمنسٹر یٹر اور صدر پاکستان نے اپنے لیگل فریم آرڈر کے تحت”ون مین ون ووٹ” کی بنیاد پر مخلوط طریق انتخاب نے ذریعے 1970ء میں عام انتخابات کرائے اس انتخاب میں کوئی مسیحی نمائندہ منتخب نہ ہو سکا۔

1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے اپنے لیگل فریم آرڈر کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر جداگانہ طریق انتخاب کے ذریعے 1970ء میں عام انتخابات کرائے اس انتخاب میں مسیحی نمائندہ منتخب نہ ہو سکا.ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے نے ان انتخابات میں حصہ نہ لیا۔

تاہم صدر جنرل ضیاء الحق نے اپنے صدارتی فرمان نمبر16مجریہ1985ء کے تحت اقلیتوں کیلئے قومی اسمبلی کیلئے 10نشستیں مختص کیں،جن میں 4مسیحی،4ہندو،پارسی اور سکھ برادریوں کیلئے مشترکہ طور پر 1اور قادیانیوں کیلئے1نشست مختص کر دیں۔

مذہبی اقلیتوں کے لئے تبدیلی کا ایک اور دور کا آغازبھٹو دور میں 1973ء کے آئین کی وجہ سے مذہبی جماعتیں خوش تھیں آئین کے آرٹیکل2میں پاکستان میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دینے سے ہوا۔

جداگانہ انتخابات کا مطالبہ اس وقت تک بہت مضبو ط اور غور طلب مطالبہ تھا جب تک مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ایک تھے۔

1973ء کے آئین کی تشکیل کے وقت” جداگاانہ انتخاب “اپنی اہمیت کھو چکا تھا کیونکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے جو کہ الگ ریاست بنگلہ دیش بن چکا تھا۔

جد اگانہ انتخابات کا سلسلہ مغربی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں اپنا مقام کھو چکا تھا۔کیونکہ مغربی پاکستان میں غیر مسلم آبادی تقریباٍ پانچ فیصد سے بھی کم تھی جن میں آدھے ہندو تھے۔

7 مارچ 1976ء کو الیکشن کمیشن نے ملک میں الیکشن کا اعلان کیا اور مخصوص نشستوں کیلئے انتخابات کا اعلان31مار چ کو گیا گیا، یہ وہ الیکشن تھا جس میں پیپلزپارٹی نے قومی اور صو بائی اسمبلی میں دو تہائی کی اکثریت حاصل تھی۔

اس الیکشن میں جن اقلیتی ممبران کا پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلق تھا انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور ان کو 28مارچ کو بلا مقابلہ چھ ممبران منتخب کر لیے گئے۔

خیبر پختو خوا اسمبلی سے تعلق رکھنےو الے ایم پی اے رنجیت سنگھ نے آئی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ انکی کمیونٹی کےلئے جد اگاانہ طریقہ انتخاب بہترین ہے تاکہ اہم اپنی مرضی سے اپنے نمائندے کا انتخاب کر سکیں۔

اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر ہونے کی وجہ سے بیت سے معاملات میں ہم اپنے مسائل پیش نہیں کر سکتے۔ماضی کی بات آپ سے کروں تو مخصوص نشستوں پر آنے والے ممبران نے جب فنڈز کی بات کی تو ہمیں یہی کہا گیا کہ آپ مخصوص نشستوں پر ہیں آپ کا کوئی مخصوص حلقہ نہیں جس پر فنڈز استعمال کریں گے۔

یہ نہ صرف ہمارے ساتھ ہے بلکہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین بھی ایسے مسائل کا شکار ہیں۔ہم دوہرے ووٹنگ سسٹم کے حق میں ہیں تاکہ ہمارے مسلم بھائی بھی ہمیں عام انتخابات میں اپنے حلقے میں ووٹ دے سکیں۔

رنجیت سنگھ پہلی بار جمعیت علماء اسلام ف کی مخصوص نشست پر رکن کے پی کے اسمبلی منتخب ہوئے ہی۔

تحریک انصاف کے ایم این اے جے پرکاش نے آئی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرف دور سے پہلے عام انتخابات میں مذہبی اقلیتوں کی الگ سے ووٹر لسٹیں تیار ہوتی تھیں جس سے ہمیں علم تھا کہ حلقے میں کتنے ووٹ خواتین کے ہیں اور کتنے ووٹ مردوں کے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس انتخابی نظام سے مطمئن ہیں کیونکہ یہ انتخابی نظام برابری کی بنیاد پر ہوتا ہےاس سےکوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ حلقے میں کتنے ووٹ مذہبی اقلیتوں کے ہیں ۔الیکشن ایکٹ کی اس شق پر کہ حلقوں میں اقلیتی برادری کے خواتین اور مردوں کی ووٹوں کی بھی درج ہونی چاہے یہ ایک اچھا اقدام ہے۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے ایم این اے کھیل داس نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ 2017ء کی مردم شماری کے اعدادوشمار میں بھی اقلیتوں کی آبادی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں دیکھنے میں آیا۔

اس معاملے میں حکومت کو چاہیے کہ ان بینادی کاموں پر اداروں کی توجہ مرکوز کرے کیونکہ آبادی کے تناسب سے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔

سندھ کے دو اضلاع جس میں عمر کوٹ اور تھرپارکر سے انتخابات میں جنرل نشستوں پر بھی امیدوار کامیاب ہو کر اسمبلی کا حصہ بنتے ہیں کیونکہ ان اضلاع میں اقلیتوں کی آبادی 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

مزدور افراد اور ٹرانس جنیڈر کے شناختی کارڈ نہ ہونا ایک اہم مسئلہ تو ہے مگر اس کی ایک وجہ عوام کا تعلیم یافتہ نہ ہونا شامل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دیہی علاقوں میں مسلم اور اقلیی شہریوں کو اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ فیملی سرٹیفکیٹ کیا ہے۔

مشترکہ رائے دہندگی نظام اور جد اگانہ طریقہ انتخاب میں سے کون سا بہتر ہے اس پر اراکین اسمبلی کی طرف سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا مگر ایک اہم نقطہ جس پر حکومت کو ضرور سوچنا چاہیے کہ مذہبی اقلیتیں پاکستان کے مختلف حصوں میں آباد ہیں جن میں انکی اکثریت ریادہ ہے وہاں برابری کی سطح پر سیاسی نمائندگی بھی ملنی چاہیے۔

صحافت میں خواتین کا کردار

شہناز تاتاری

“وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ” اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی یہ رنگا رنگی خواتین کے دم قدم سے ہے۔

گھر اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں خاتون خانہ موجود نہ ہو، کہنے کو تو وہ شریک حیات بھی ہے، ماں کے عظیم رتبے پر بھی فائز ہے، وہ ایثار وفرض شناسی کی بہترین مثال ہے اور اس کی یہی خوبی اسے باہر کی دنیا میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔

جہاں افراد زندگی کو منفرد انداز میں گزارنے کے لیے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں تاکہ وہ معاشی ومعاشرتی طور پر اپنے آپ کو اس قابل بنا سکیں کہ سفر زیست پر آسائش ہو سکے، دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات نے بہت سے شعبوں کو متعارف کروایا ہے۔

طب، انجیینئرنگ، ٹیکنالوجی کے قدم رجحانات آج یکسر بدل گئے ہیں مگر وہ علوم ابھی بھی باقی ہیں جن کی بنیاد پر یہ معاشرہ کھڑا ہے۔

صحافت بھی ایک ایسا شعبہ ہے جو زمانہ قدیم سے ہی انسان کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ہیئت تبدیل ہوتی رہی ہے۔

پتھر کی سلوں اور درختوں کی چھال سے ہوتا ہوا دریا کے کنارے ریت پر اشکال میں ڈھل تصویری رسم الخط تک پہنچا۔ کامیابی کا سفر کبھی سست روی کا شکار رہا اور کبھی برق رفتار گھوڑے کی طرح منزل پر پہنچ گیا۔

آج صحافت جس شکل میں ہے وہ صدیوں کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے آج اس نے ایسے ہتھیار کی شکل اختیار کر لی ہے جو مرہم اور زخم دونوں لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تمہید ذرا طویل ہو گئی ہے معافی کی درخواست گزار ہوں، جہاں تک صحافت میں خواتین کا کردار ہے تو میں بتا چکی ہوں کہ وہ فطرتاً محنتی اور ایماندار ہوتی ہیں ان کی رسائی چونکہ مردوں کی نسبت فیلڈ میں کم ہوتی ہے وہ اپنے کام پر بھرپور توجہ دیتی ہیں۔

یادش بخیر آج سے چار دہائیاں قبل جب میں نے اور میرے ساتھ کی خواتین نے اس شعبے میں قدم رکھا تو یقین جانیے ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم کسی بہت بڑے منصب پر فائز ہو گئے ہیں اور ہمارے معاشرے میں پھیلی برائیوں اور نا انصافیوں کو روکنا ہماری ذمہ داری ہے۔

ہمارے ایڈیٹرز نے بھی ہمیں یہی باور کرایا تھا کہ آپ لوگوں کے مددگار ہیں آپ نے سرکاری اداروں کی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرنی ہے، معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور پوری دیانتداوری سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں سرکاری ہسپتالوں میں جائیں دیکھیں نادارمریضوں کو ادویات اور علاج معالجے کی سہولیات مسیر آ رہی ہیں۔

اپنے علاقے کے تعلیمی اداروں کی کوریج کیجیے تاکہ بچوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ کوتاہیوں کی نشاندہی اسی انداز میں کیجیے کہ انتظامیہ اصلاح کی جانب توجہ دے سکے۔

ان اداروں میں جائیں جن کا تعلق براہ راست پبلک سے ہے اور دیکھیں کہ وہ اپنے امور کس طرح انجام دے رہے ہیں۔

یہ وہ درس ہوتا تھا جو صبح ہر صحافی جس میں مرد و خواتین کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی تھی ملکر اپنی صحافتی ذمہ داریوں کا آغاز کرتا تھا۔

جس زمانے کی میں بات کر رہی ہوں اس وقت فیلڈ میں گنتی کی چند خواتین ہوتی تھیں راولپنڈی اسلام آباد میں محترمہ فریدہ حفیظ صاحبہ، شیخ اکرام الحق، انیس مرزا صاحبہ، فوزیہ شاہد، رباب عائشہ، انور سلطانہ، صالحہ اور بھی کئی خواتین ہوں گی مگر یہ سب اپنے شعبے میں نمایاں مقام رکھتی تھیں.

اس زمانے میں خواتین کے صفحے ادب پارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ موبائل اور انٹرنیٹ نہیں تھا تو لوگ اخبار بہت شوق سے پڑھتے تھے۔

محترمہ رباب عائشہ کا اس وقت روزنامہ جنگ میں چھپنے والا خواتین کا صفحہ بے حد مقبول تھا اندازہ ان خطوط سے لگایا جاتا جو پسندیدگی کی سند کے طور پر موصول ہوتے۔

فریدہ حفیظ کی رپورٹنگ مضامین اور شمیم اکرام الحق کی خوبصورت اور جاندار تحریریں، شاعری آج بھی پرانے قارئین کو یاد ہوں گی۔ محترمہ انیس مرزا انگریزی اخبار سے وابستہ ایسی کالم نگار اور رپورٹر تھیں جن سے بڑے بڑے حکومتی عمائدین بھی کنی کتراتے تھے۔

کیونکہ ان کا قلم کاٹ دار تھا۔ فوزیہ شاہد نے میگزین روزنامے کے علاوہ صحافتی تنظیموں میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

انور سلطانہ نے نوائے وقت میں ایک طویل عرصہ اپنے ہنر کا جادو جگایا اور اس کے بعد کئی اخباروں میں کام کیا ۔

صحافت میں جو فرق آج اور کل میں ہے وہ بڑا واضح ہے، اپنے دور میں ہم خواتین پیدل اور بسوں ویگنوں میں سفر کرتے تھے سب کا یہی حال تھا۔

اپنے پروفیشن سے محبت نے ہمیں کبھی تھکنے نہیں دیا کیونکہ ہمارے نزدیک اس وقت صحافت ایک مشن اور عبادت کا درجہ رکھتی تھی، اگر آج کے دور کا موازنہ کیا جائے تو آج کی صحافی خواتین نے پرانی صفات چھوڑ نئے زمانے کے رنگ اپنا لیے ہیں، وہ زیادہ پُر جوش اور بااعتماد ہیں۔

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ یوں بھی وہ صحافت دم توڑ گئی جس کا مقصد معاشرتی فلاح و بہبود لوگوں کی خدمت اور مفلس اور نادار لوگوں کو انصاف دلوانا تھا۔

لفظوں کی حرمت کو ہر حال میں برقرار رکھنا تھا۔ مگر آج کے دور میں لفظ بے توقیر ہو چکے ہیں۔ زمانے کے چلن کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں بدلاﺅ آ گیا ہے۔ سچائی، نیکی، ایمانداری ان کے مفہوم بھی بدل گئے ہیں۔

زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے مگر ہم پرانے دور کی صحافی خواتین آج بھی ان روایتوں میں زندہ اور پرانی اقدار کے سہارے جی رہی ہیں۔

آج کی صحافی خواتین جن سنہری اصولوں پر گامزن ہیں اس سے ان کی ترقی کی راہیں کھل گئی ہیں۔ آج پبلک کی بھلائی نہیں اقتدار کے ایوانوں میں رسائی ہے۔

عوام کے مسائل کی نشاندہی کی صحافت کی بجائے سیاسی جماعتوں کی ترجمانی عروج پر پہنچ چکی ہے، سب سے بڑے ناقدین تو عوام خود ہیں جو چاہے سوشل میڈیا ہو یا مرغے لڑاتے ٹاک شوز ہر طرف فیڈ بیک یہی ملتا ہے کہ صحافی بکاﺅ ہیں اس رائے کو سنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ صحافت جو پیغمبرانہ پیشہ ہے اس کی آبرو بچائی اور قائم رکھی جا سکے۔