کیا صحافی ماں ہونا جرم ہے؟

صباحت خان

میری بات سنو ، گھر بیٹھ کر بچے سنبھالو، صاحبہ اولاد ہو اب کون سی صحافت کر رہی ہو،چلتا پھرتا ڈے کیئر سنٹر لگتی ہو ، خاوند خرچا نہیں دیتا ؟ ایسی کون سی مجبوری ہے جو شادی اور بچوں کے بعد بھی صحافت میں خود کو خوار کر رہی ہو،،، بچے اٹھا اٹھا کر کام کرتی ہو ، بچوں والی ماوں کو کوئی نوکری نہیں دیتا ایسے حال میں دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ایسے جملے ہر روز میرے کان سنتے ہیں ۔

حیران مت ہو یہ باتیں میرے منہ پر ہر روز کوئی نہ کوئی صحافی برادری کی جانب سے ادا کی جا تی ہیں ۔ بہت ذمہ داری کے ساتھ نہ صرف مرد بلکہ خاتون صحافی بھی ادا کرنے سے نہیں کراتی ۔ نوکیلے جملے اور منفی انداز کے سلوک برداشت کرنے کے بعد دل اور ذہن یہی سوچتا ہے کہ شاید میں غلط کر رہی ہو، مجھے صحافت چھوڑ دینی چاہیے،گھر اور بچوں کی پرورش کے علاوہ اب میرا کوئی کام اور مقام نہیں ہے ، یہ جملے سن کر چپ ہو جانا اور برداشت کرکے کام کرتے رہنے کسی بھی صورت میں ذہنی طور پر آسان نہیں ہے۔

   دو ہزار اٹھارہ میں بیٹی کی پیدائش کے بعد آفس کا پہلا دن آج بھی یاد ہے جب میں بیٹی کو ساتھ لے کر گئی ۔ ایڈیڑ جاوید قریشی صاحب کی اجازت کے بعد میں نے آفس میں کام کرنا شروع کیا آج تک ایڈیٹر کی شگر گزار ہوں جن کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے آج تک بچوں کے ساتھ کام کر رہی ہوں مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ آفس کے اندر دیگر کام کرنے والی سنیئرصحافیوں کی جانب سے عجیب غریب رویہ کا شکار ہوئی تھی۔

ایک ماہ بعد جب میں آفس آئی تو میرے کام کرنے والی میز پر ایک اور صحافی خاتون(نام بتانے کی ضرورت نہیں ہے ) کو بیٹھ دیا گیا تھا اور خاتون سمیت دیگر افراد نے سلام کا جواب دینے کے بعد سے شام تک ایسے ظاہر کرتے رہے کہ میرا وجود اور میری بیٹی کمرے میں موجود ہی نہیں ہے۔ بیٹھنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے میں دوبار ایڈیر کو بتایا تو انہوں نے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو اگاہ کیا جس کے بعد آئی ٹی میں کام کرنے والے کولیگ اور ایڈیڑ کی مدد سے اسی کمرے میں میرے کام کرنے کے لیے میز اور کمپیوٹر لگایا گیا سلسلہ یہاں تک نہیں رکا تھا۔

آفس میں کام کرنے والے کولیگ کی جانب سے لاہور ہیڈ آفس میں میرے بارے میں غلط تاثر دیا جاتا تھا کبھی دیر اور جلدی آنے کی رپورٹ کی جاتی، کبھی کام میں غلطیوں کی لسٹ بیان کی جاتی، کبھی کردار کشی کی جاتی، افسوسناک صورت یہ تھی کہ آفس میں کوئی میری مدد کرنا بھی چاہتا تو اس کو بھی غلط باتوں سے ہراساں کیا جاتا ہے ۔

ایڈیٹر کی جانب سے کام میں کوئی کمی نہیں برداشت کی جاتی تھی مگر انہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا تھا مگر معاملات ہیڈ آفس میں غلط رپورٹ کیا جاتے تھے جس کا نتیجہ ایک سال بعد میری امریکہ کی میڈیا فلوشپ ہوئی جس کے لیے میں نے چھٹیاں کی درخواست دی اور حیران کن انداز میں قبول بھی کر دی گئی۔

فلوشپ کرنے کے بعد پاکستان آئی تو مجھے آفس آنے کے پہلے ہی دن ایچ ار ڈیپارٹمنٹ میں بلا کر نوکری سے استعفیٰ دینے کو بولا گیا۔ میں نے خاموشی سے دستخط کیے اورایک ادارے کو چھوڑا کر مجھے آج تک ذہنی سکون کے ساتھ ساتھ فری لانسر صحافی کے طور پر قومی سطح کے ساتھ ساتھ بین الاقومی اداراوں میں بھی کام کرنے کے مواقع فراہم ہو رہے ہیں۔ آج میں شکرگزار ہوں منفی سوچ رکھنے والے لوگوں کے برے رویوں کا جن کا شکار ہوکر میں نے اپنے بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ اپنے پروفیشن کو بھی جاری رکھا ہوا ہے ۔

میرے حالات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ صاحب سوچ رکھنے والے افراد کی جانب سے حوصلہ افزائی سے ہمت بھی ملتی ہے۔جس کی وجہ سے کام اج تک کر رہی ہوں مگر لوگوں کے غیر انسانی رویہ اور باتوں نے مجھے بہت تکلیف دی ہے اس سب کے باوجود میری صحافت کا سفر جاری ہے ۔ پہلے مجھے لگاتا تھا کہ میں واحد صحافی ماں ہوں جو یہ سب رویوں کا شکار ہو رہی ہوں۔

بچوں کے ساتھ شروع میں کام کرنا انتہائی مشکل لگاتا تھا ۔ذہنی، جسمانی، معاشرتی دباؤ نے مجھے بہت اکیلا کر دیا تھا مگر آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ میری طرح دیگر شعبوں میں بھی خواتین اپنے بچوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ بے شمار مسائل کا شکار ہوتے ہوئے بھی اپنے شوق اور معاشی ذمہ داریوں میں کردار ادا کر رہی ہیں۔

اس طرح میڈیا میں بھی پچھلے کچھ سالوں میں ایسے واقعات مناظر عام پر آئے جس سے انداز ہوا کہ خواتین اس مسئلہ پر اس لیے بات نہیں کرتی تھی کہ وہ ایسے رویوں کو ہراسگی کے بجائے اپنا قصور سمجھتی تھی مگر اب کافی خواتین نے آواز اٹھائی تو اندازہ ہورہا ہے کہ ملک کے چاروں کونوں میں صحافی خواتین مائیں ایسے حالات کا سامنا کر رہی ہیں ۔ میں نے اپنی ساتھی صحافی خواتین سے رائے جاننے کے لیے رابطہ کیا ۔۔۔۔۔ بہت تکلیف دہ رویوں کو برداشت کرتے ہوئے ہم صحافی خواتین کا کر رہی ہیں اور حوصلہ افزائی کے لیے کوئی پلیٹ فارم بھی موجود نہیں ہے ۔

نام ظاہر نہ کرتے ہوئے صحافی خاتون کا کہنا ہے یہ تلخ حقیقت ہے کہ اپنا بچہ روتا ہے تو دل میں تکلیف ہوتی ہے دوسرا کا روتا ہے تو سر میں درد ہوتا ہے ۔ صحافتی اداروں کے حالات بھی ایسے ہی ہیں کہ خواتین کو بچوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے زبردستی نوکری سے نکلا جاتا ہے اسی رویہ کا شکار میں بھی ہوئی ہوں ۔ صحافی خاتون کا مزید کہنا ہے کہ جب میں بچوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو لوگوں کے مثبت اور منفی رویوں سے معلوم ہو گیا کہ اب صحافت کا شعبہ مزید مشکل ترہو جائے گا۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ ورکنگ مدرز کے لیے کوئی نوکریاں موجود نہیں ہیں دوسرا اگر بچوں کے ساتھ نوکری مل بھی جائے تو آفس کا ماحول بچوں کے لیے مناسب نہیں ہوتا ، بچوں کے سونے جاگنے، رونے، کھیلنے سے آفس میں کام کرنے والے لوگ مسائل پیدا ہونے کی شکایت کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ڈے کیئر سنٹر کا ہمارے دفتروں میں کوئی سوچتا بھی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں کام کرنے والی خواتین بھی خود ان مسئلہ کا شکار ہو رہی ہے ۔

بلوچستان اور کے پی  میں ایم این اے خواتین کے بچوں کے لیے حال ہی میں سنٹر قائم ہوئے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ملکوں میں ڈے کیئر سنٹر میں والدین سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ بچے ملک کے مستقبل ہیں مگر پاکستان میں مائیں کدھر جائے ڈے کیئر سنٹر ایک کاروبار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اسی صورت میں مائیں بچوں کے ساتھ کام کرنے کو ترجیخ دیتی ہیں ۔

سرکاری ٹی وی میں اینکر صحافی خاتون مدیحہ عابد علی کا کہنا ہے خواتین کے مسائل کسی صورت ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، کیوں کہ مسئلہ کا حل تب ہی نکلتا ہے جب مسائل کو سمجھا جائے ۔ نجی ادار وں کی نسبت سرکاری ٹی وی میں ڈے کیئر سنٹر موجود ہے صحافی خواتین بچوں کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں ۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ورکنگ ویمن کے مسائل، ملکی اور معاشرتی ترقی کے کردار پر بھر پور بحث ہو رہی ہے مگر ہمارے ملک میں تو ووکنگ وویمن کی موجودگی کو ہی سوالیہ نشان بنا جا رہا ہے ۔ خاص کر صحافت کے شعبے کو مردوں تک ہی محدود سمجھا جاتا ہے جبکہ اب خواتین کی تعداد بھی صحافت کے مختلف شعبوں کو اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ بے شمار مسائل کے باوجود خواتین ریڈیو ، ٹی وی چینل ، اخبارات کے ساتھ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر ترجیحات بنیادوں پر کام کر رہی ہیں ۔

بد قستمی سے میں ایک ایسے روایاتی معاشرے میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سے کام کر رہی ہوں جہاں عورت ، خاتون ، لڑکی کو ایک کی روایاتی سوچ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ عورت ماں بنانے کے بعد کسی کام کی نہیں رہتی، زندگی کا ہر رنگ ختم ہو جاتا ہے ۔ مجھے یہ معلوم ہے ماں باپ کی میرے تعلیم اور مستقبل پر بہت محنت اور قربانیاں ہیں اس سب کو یاد رکھتے ہوئے اپنے شوق کو پیشہ میں تبدیل کرنا ، کام کام کام کرتے جانا اور مثبت سوچ سے چلتے رہنا ہی منفی باتیں کرنے والوں کے لیے جواب ہے۔صحافی ماں ہونا میرے لیے باعث فخر ہے

WhatsApp-Image-2022-09-12-at-10.08.38-AM

کھلے آسمان کے تلے موجود باپردہ عورتیں

وجیہ اسلم

ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے 10 ہزار371 حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین متاثر ہوئیں،سب سے زیادہ تعدادتحصیل تونسہ شریف میں ہے جو 3ہزار953 ہے اور تحصیل کوہ سلیمان میں 3ہزار سے زائد خواتین پریشان حال ہیں.

رات کے اندھیرے میں آنے والا سیلابی ریلا گھر کی چار دیواری میں محفوظ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے پردے بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ یہ کوئی حیرانی، تجسس اور بے یقینی والی بات نہیں بلکہ حقیقت اور زمینی حقائق پرمبنی تصویر کشی ہے۔یوں تو جنوبی پنجاب ہمیشہ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں رہتا ہےمگر افسوس کہ ہر بارسیلاب اپنے ساتھ مزید تباہی لے کر آتا ہے۔

گیارہ سال قبل جون 2011ء میں وسطی پہاڑی سلسلے کوہ سلیمان پر ہونے والی مون سون بارشوں میں ڈیرہ غازی خا ن کے تین پہاڑی نالوں میں طغیانی سے د رجنوں مواضعات زیر آب آگئے تھے۔ رود کوہی کے سیلابی ریلوں کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں بھی متاثر ہوئیں۔ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی اس علاقے کی قسمت نہیں بدلی کوہ سلیمان کی پہاڑیوں کے پانی کا رخ کیسے تبدیل کیا جائے ایسی کوئی حکمت عملی آج تک سامنے نہیں آئی ۔حکومتی اعدادوشمار کے مطابق حالیہ سیلابی ریلے سے ضلع ڈی جی خان میں 8 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ ۔سیلاب سے ضلع بھر میں ہونے والے نقصانات جس میں فصلوں کی تباہی ،مکانات کا بہہ جانا،خوراک کی کمی ،صحت کے مراکز کا ڈوب جانا ان سب کا اندازہ حکومت کئی ماہ تک نہیں لگاسکتی ۔

حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلے سے جہاں بچوں بوڑھوں سمیت ہر طبقہ متاثر ہوا ہے وہاں خواتین کے مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ عمومی طور پرجنوبی پنجاب میں آنے والا سیلابی ریلا اپنے ساتھ وہاں کی با پردہ،جفا کش اورمحنت مشقت کرنے والی عورتوں کے لئے قیامت سے کم نہی ہے۔

اڑتیس سالہ جنت بی بی نے اپنی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقے میں پانی رات کے وقت داخل ہوا۔جب انکو خبر ہوئی تب تک پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہو چکا تھا کہ وہ صرف اپنے بچوں کو ہی وہاں سے اٹھا کر کسی محفوظ جگہ لے جانے میں ہی کامیاب ہوسکیں۔ انہیں نہ تو کوئی کپڑا اٹھانے کا ہوش تھا اور نہ ہی اپنا قیمتی سامان ہمراہ محفوظ رکھ سکیں۔ رات کے اندھیرے کی وحشت اور اس کے ساتھ ساتھ تیز بہاؤ کے ساتھ آبادی کی طرف بڑھتےپانی کی دہشت سے وہ اپنے سروں کی چاردوں تک اٹھانا بھول گئیں تاکہ اپنے بچوں کی زندگیاں بچا سکیں۔

کیا مسائل سےگِھری خواتین ذہنی دباؤسے نکل پائیں گی؟

کیمکل ذدہ پانی سے خواتین مخصوص جلدی امراض کا شکار تونسہ شریف کی یونین کونسل نتکانی 61ہزار 580کی آبادی پر مشتمل علاقہ جس میں خواتین کو مخصوص قسم کی جلدی بیماری لا حق ہو ئی ہے۔فلاحی اداروں سے منسلک ایک رضا کار کے مطابق قریباً 600سے زائد خواتین اس بیماری کا شکار ہوئیں، جنہیں طبی امداد مہیا کی گئی ان میں سے 232 حاملہ خواتین تھیں۔ گورنمنٹ کے اعدو شمار کے مطابق اس علاقے میں سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 18ہزار564ہے جن میں مرد افراد بھی شامل ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ جب ان اعدادوشمار کا حوالہ وہاں پر کام کرنے والی پرائیویٹ فلاحی تنظیموں سے کیا گیا تو انہوں نے حکومتی اعدادوشمار کوماننے سے انکار کردیا۔مقامی لوگون کا کہنا ہے کہ کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والا پانی تیزابی نوعیت کا تھا جس سے سب سے زیادہ نقصان وہاں کی بے یارو مددگار خواتین کو پہنچا۔ پانی کی سطح اتنی اونچی تھی کہ خواتین کئی کئی گھنٹے اسی پانی میں کھڑی رہیں،گھنٹوں کی مسافت طے کرکے پانی میں کھڑے رہنا یہ عظیم اور با ہمت عورتوں کی بہترین مثال ہے۔

دوسراہم پہلو یہ تھا کہ بھوک سے بے حال جب حکومتی فضائی امداد خشک میدان میں آسمان سے زمین کی طرف پھینکی جاتی تو اپنے خاندان کو بھوک و پیاس سے بچانے کے لئے یہی عورتیں سیلا بی پانی کو چیرتی ہوئی خوارک کی طرف لپک جاتیں۔ فلاحی ادارے سے منسلک خاتوں صحافی انیلا اشرف نے زمینی حقائق بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ کیمپوں اور خیمہ بستیوں میں خواتین کے لئے ضرورت کا سامان لے کر آئیں تو وہاں موجود ہر عورت کی آنکھ آشک بار تھی۔خواتین سے بات چیت کے دوران سلمیٰ (فرضی نام )نامی خاتوں جو کہ 2بچوں کی ماں تھی کہ انہیں اور بعض دیگر خواتین کو ٹانگوں پرخارش کی وجہ سے تکلیف ہو رہی تھی۔ خواتین کی حالت دیکھتے ہوئے وہاں میڈیکل کیمپ کے قیام کے ساتھ فی میل ڈاکٹر کا بھی بندوبست کیا گیا تاکہ ان خواتین کے مرض کا علاج ہوسکے۔

دوران تشخیص معلوم ہوا کہ یہ خواتین مخصوص قسم کی جلدی مرض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ فلا حی تنظیموں کی طرف سے یہاں خواتین کے لئے میڈیکل ٹیم نےخواتین کو سیلابی پانی میں کھڑے رہنےکی وجہ سے جلدی بیماری اور الرجی کی تشخیص کی۔ مختلف کیمپوں سے جب خواتین سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ دن بدن اس بیماری سے خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔انیلہ کے مطابق اس میڈیکل کیمپ میں خواتین ڈاکٹرز ہونے کے باوجود خواتین اپنی جلدی بیماری کے بارے میں بتاتے ہوئے شرم محسوس کر رہی تھیں۔

“(خوارک کی کمی،بیت الخلا نہ ہونا،ادویات کی عدم دستیابی،گھروں کی مرمت،پینے کا پانی نہیں،کپڑے گندے ،زندگی مشکل سے مشکل ترین ہو گئی” )

حمل اور دودھ پلانے والی مائیں ذہنی دباؤ کا شکار

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ضلع بھر میں 10 ہزار371، حمل اور دودھ پلانے والی خواتین متاثر ہوئیں ہیں ۔ڈی جی خان کی خواتین کی روزانہ کی خوارک کی بات کریں تو ان کی خوارک میں تین چیزیں سب سے اہم ہیں، جن میں گندم،بکری ،گائے، بھینس کا تازہ دودھ اور کھجوریں شامل ہیں ۔سیلاب کے پانی سے آئندہ 8 ماہ کے لئے محفوظ کی گئی گندم بہہ گئی،مویشی بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے جبکہ کھجوروں کے درخت جڑوں سے اکھڑ گئےایسے حالات میں حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو صحت مند خوراک ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگیا ہے۔

ضلع بھرمیں خواتین کی آبادی کا تناسب ساڑھے 48 فیصد ہے، جنکی اکثریت پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار رہتی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین مزید کمزور ہو جائیںگئی،جس کا اثر زچہ و بچہ پر براہ راست پڑے گا۔خواتین کی بنیادی ضروتوں کا خیال رکھتے ہوئے یونیسیف نے جو امداد ی سامان مہیا کیا اس میں خواتین کی ادوایات،بچوں کےلئے خشک دودھ اور کیلشیم کے ساتھ ساتھ، خواتین کو کو سینیٹری پیڈز بھی دیے گئے۔ مقامی فلاحی ادارو ں سے تعلق رکھنے والی رضا کاروں کے مطابق خواتین نے بچوں کو ڈبے والا دودھ پلانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ کہ ہم اپنے بچوں کو کیمکل والا دودھ نہیں پلائیں گے۔

خواتین کے لیے بیت الخلا کھلا آسمان

آنکھوں دیکھا حال کیا ہو گا اگر سن کر ہی انسان شرم سے سر اٹھانے کے قابل نہ رہے،رفع حاجت کے لئے خواتین کوصبح سےسورج غروب ہونے کا انتظار رہتاہے کیونکہ انکے پاس اپنی عزتوں کو محفوظ رکھنے کے لئےچاردواری کرنے کے لئے کپڑے کی چادریں تک میسر نہیں ،سب کچھ سیلاب میں چھوڑ کر آنے والی خواتین ایک دوسر ے کا سہارا بھی نہ بن سکیں۔علاقائی روایات کے مطابق وہاں کی خواتین اپنے گھروں سے کم نکلتی ہیں اور اگر گھروں سے نکلنا بھی ہو تو پردے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔تونسہ شریف کی خواتین بے یارو مدد گارکھلے آسمان کے نیچےرفع حاجت کرنے پر مجبور کسی کو بھی انکی بے بسی پر ترس نہیں آیا۔اپنے علاقے کے لوگوں کو اس عذاب سے بچانے کےلئے دن رات فلاحی کاموں میں مصروف رضا کار تنزیل کا کہناہے کہ جن علاقو ں سے پانی نیچے اتر گیا وہاں لوگ اپنے گھروں کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں ۔گھروں کو واپسی ہو تو رہی ہے مگر تباہ شدہ گھروں کو پھر سے تعمیر کرنا ایک بڑامسئلہ ہے۔ جب گھر کی چار دیواری ہو گی تو اپنی عزتوں کا تحفظ کرنے والی خواتین بیت الخلا جیسے مسائل سے باہر نکل پائیں گی۔ جنت بی بی کا کہنا ہے کہ انکے خاندان کی بہو اور بیٹیاں سارا دن انتظار کرتی ہیں ک کہ کب سورج غروب ہو اور ہم رفع حاجت کر سکیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری فلاحی اداروں کی اولین ذمہ داریوں میں یہ شامل ہونا چاہیے کہ وہ پورٹ ایبل ٹائلٹس کا فوری انتظام کریں۔

جہاں الفاظ ساتھ چھوڑ وہاں غالب فرماتے ہیں:
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

تونسہ شریف میں سرکاری پناہ گاہ خواتین کے لئے بھی نہیں کھولی گئی بے حس اہل اقتدار،سابق وزیر اعلی عثمان بزادر نے تونسہ شریف میں 250بستروں پر مشتمل6کڑوڑ کی لاگت سے سرکاری پناہ گاہ سیلاب سے متاثرہ خواتین اور بچوں کے لئے بھی نہیں کھولی۔وہاں کی مقامی صحافی نے جب اس معاملے پر سرکاری عہدے دار کا موقف لیا تو انکاکہنا تھا کہ ضلع کی اعلی قیادت نے انہیں پناہ گاہ کھولنے کا حکم جاری نہیں کیا تھا۔ اگر اس پناہ گاہ کو سیلاب متاثرین کیلیے کھول دیا جاتاتو تونسہ شریف کی 3ہزارنو سو سے زائد حاملہ اور شیرخواروں کو دودھ پلانے والی بہت سی ماؤں کو رہنے کیلیے چھت میسر آسکتی تھی۔

2

آٗئندہ الیکشن کا اعلان:سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کابہترین حل

وجیہ اسلم

میری عمر دس سال تھی جب سیلا ب نے ہمارے علاقے میں تباہی مچائی سب کچھ پانی میں بہہ گیا تھا،آج 42سال کی عمر میں میرے بچے بھی وہی مناظر دیکھ رہے ہیں جو میں نے 32سال پہلے دیکھےتھے .

یہ کہنا ہے راجن پور کی تحصیل روجھان سے تعلق رکھنے والے دین محمد کا۔اس کا کہنا تھا کہ سیلاب سے شہری علاقے تو بچ جاتے ہیں مگر دیہی علاقوں میں سیلاب کی تباہی سے فصلیں ،گھر ،جانور اور کاروبار سب برباد ہو جاتاہے ۔

ایسی صورتحا ل میں حکومتی مشنیری اور فلاحی تنظیمیں تمام سسٹم کو بحال کرتے کرتے وقت لیتی ہے ہاں مگر وہاں کے مقامی حکمران اگر توجہ دیں تو یہ مسائل حل ہونے میں زیادہ وقت نہ لیں ۔

کیاانتخابات ہی اس مسئلے کاحل ہے؟ اس بارے میں سینئر صحافی ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کا اعلان اگر ہو جائے تو ملک بھر میں سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کے لئے نہ تو حکومتی اقدامات کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی بیرونی امداد کی بلکہ امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں ووٹ کی خاطر عوام کےبنیادی مسائل ضرور حل کر دیں گے ۔

اسمبلیوں میں ایک بار پھر سےمنتخب ہونے کے لئے تمام سیاستدان اپنے اپنے حلقوں کی طرف رخ کریں گے۔ووٹوں کے حصول کے لئے انکے مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کے لئے اپنے ذاتی مال کا بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

حالیہ مون سون میں کوہ سلیمان کی پہاڑیوں کے دامن سے بارشوں کے پانی نے جنوبی پنجاب کے د وبڑے اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو قحط زد، اور بے سروسامان کر دیا ہے ۔ ملک کی 60 فیصد گندم جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ پیدا کرتا ہے سیلابی پانی سے کپاس اور گندم کی فصلیں تباہ ہو گئیں ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں غذائی قحط کے ہونے کے قوی امکانات ہیں.

ان دونوں اضلاع کی عوام کئی دہائیوں سے سیلابی ریلوں کی تباہی کو دیکھتے آئے ہیں۔ مگر سوال سیلاب کی تباہی کا نہیں بلکہ حکومت جدید دور میں بھی کوئی ایسا انفراسٹرکچر نہیں لا سکی جس سے دونوں اضلاع کی عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔

ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے قرباً70فیصد متاثر ہوئے ہیں۔حکومتی اور بیرونی امداد کے باوجود متاثرہ علاقوں کی بحالی کا عمل سست روی کا شکار ہے ۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راجن پور جنرل صفعت اللہ جہنوں نے سیلاب سے کچھ عرقصہ پہلے ہی اپنا عہدے کا چارج لیا ۔انکے مطابق پانی پہاڑوں سے گزرتا ہوامیدانی علاقوں کی طرف جب رخ کرتا ہے تو ایک ریلے کی صورت میں آتا ہے ۔

پانی کے ریلے کو ایک چینل (راستے) کے ذریعے دریائے سندھ میں جانا چاہیے مگر ان راستوں میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے پانی کا پھیلاو زیادہ ہو جاتا ہے جس کو قابو کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ 1947ء سے لے کر اب تک 2022 میں سب سے بڑا سیلابی ریلہ تھا جس نے ضلع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کو 80فیصد متاثر کیا۔

راجن پور میں 6رد کوہیاں ہیں)رد کوہیوں سے مراد وہ قدرتی راستے ہیں جن سے سیلابی پانی ایک ہی رفتار میں دریائے سندھ میں جا گرتا ہے) مگر حالیہ سیلاب میں مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سےایک نئی رد کوہی بھی ظاہر ہوئی ہے۔

اس سلسلے میں یہاں کے سیاسی نمائندوں سے بھی میں میٹٹنگز جاری ہیں اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی بات چیت چل رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہاں رد کوہیوں کے اوپر ناجائز تجاوزات ہیں ۔

پانی کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ آتی ہے تو یہ ظاہر ہے پانی نیا راستہ بنا لیتا ہے یہ ایک اہم پہلو ہے جیسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ڈیرہ غازی ڈویژن سے قومی اسمبلی میں 15ایم این ایز جبکہ صوبائی اسمبلی میں 30 ایم پی ایز نمائندگی کر رہے ہیں۔اگر سیاسی نمائندوں کو اپنی کارکردگی کا صحیح اندازہ لگانا ہے تو آئین میں ہر 3 سال بعد الیکشن کا قانون پاس کرنا چاہیے تاکہ سیاسی وڈیروں ،سیاسی جاگیرداوں اورسیاسی بزنس مین کو اپنے اپنے حلقوں کی عوام کی مشکلات کا صحیح اندازہ ہو سکے،جن کے ووٹوں سے اقتدار کی کرسیوں میں بیٹھتے ہیں ۔

حالیہ سیلاب سے جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ ضلع ڈیرہ غازی خان اور اس کی تحصیل تونسہ شریف جبکہ ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان بری طرح متاثر ہوئی ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے الیکشن نتائج کے مطابق قومی اسمبلی سے 2018ء کے انتخابات میں راجن پور سے پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کلین سوئپ کیا جس میں سردار جعفر خان لغاری اور سردار ریاض محمود خان مزاری
اور سردار نصر اللہ خان دریشک شامل ہیں ۔

سردار جعفر لغاری قومی اسمبلی میں مسلسل 4بار رکن منتخب ہوئے اس میں 3بارمسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی وفاداری نبھائی جبکہ 2018ء میں سیاسی مسکن تبدیل کر کے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ سردار نصر اللہ دریشک کا شمار ضلع کے سب سے پرانے سیاستدانوں میں ہوتا ہے ۔

۱1970اور 1977ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ایم پی اے منتخب ہوئے جبکہ 9عام انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں جس میں سے 5میں کامیاب ہوئے۔

ڈی جی خان میں قومی اسمبلی کی تما م 4نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے جن میں خواجہ شیزراز محمود ،محمد امجد فاروق خان ،زرتاج گل اور سردار محمد خان لغاری کامیاب ہوئے۔

سیلاب سے متاثرہ دونوں اضلاع میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، اتنی تباہی کے بعد بھی کیا عوام آئند ہ انتخابات میں انہیں ووٹ دےگی؟۔

عوام میں سیاسی شعور کی بات کریں توگزشتہ انتخاب میں اس بات کا فیصلہ ان حلقوں کے ٹر ن آوٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نتائج کے مطابق ڈیرہ غازی خان کی قومی اسمبلی چاروں نشستوں پر ووٹوں کا ٹرن آوٹ 50فیصد جبکہ راجن پور میں ٹرن آوٹ قریباً 60فیصد تھا۔ووٹ کے ٹرن آوٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان علاقوں میں عوام سیاسی نمائندوں کا انتخاب بھر پور انداز میں کرتی ہے۔

سیلاب نے جنوبی پنجاب کے کن حلقوں کومتاثر کیا؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتخابی نتائج کے مطابق ڈیرہ غازی خان کے حلقہ این اے 189 سےتحریک انصاف کے خواجہ شیرازمحمود ایم این اے ہیں جبکہ اس میں صوبائی دو حلقے پی پی285سے پی ٹی آئی کے خواجہ محمد داوؤد سلیمانی دوسرا حلقہ پی پی 286سابق وزیر اعلی سرداراحمدعثمان بزادر کا آتا ہے ۔

پاکستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اعداوشمار کے مطابق اس حلقے میں تحصیل تونسہ کوسب سے زیاد80فیصد نقصان ہوا ہے۔ایم پی اے داوؤد سلیمانی کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ حلقہ دیہی علاقو ں پر مشتمل ہے تو سیلابی پانی سے یہاں کی فصلوں کو 75فیصد نقصان ہواہے جبکہ ابھی تک گورنمنٹ کی طرف سے اپنی گھروں کی مرمت کاسلسلہ شروع نہیں ہوا ۔

سیلاب کے دنوں میں تونسہ شریف میں ایک سب سے بڑا مسئلہ سامنے آیا تھا اس میں سابق وزیر اعلی عثمان بزدار کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ انہوں نے عورتوں اور بچوں کے لئے 200بستروں پر مشتمل سرکاری پناہ گاہ کیوں نہیں کھولی۔اس حلقے میں ایک متاثرین اللہ بخش کا کہنا ہے کہ جب انتخابات ہوتے ہیں تو یہاں کے تمام سیاستدان اور انکے سیکرٹری ہمارے علاقوں کا روزانہ دورہ کرتے ہیں اور ہمارے بچوں کو نوکرکیوں اور بنیادی سہولیات دینے کے وعدے بھی کرتے ہیں مگر انتخابا ت کے بعد کوئی ہمارے علاقوں کی طرف رخ نہیں کرتا۔

دوسرا حلقہ این اے 190محمد امجد فاروق خان کھوسہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔اس حلقے میں پی پی 287 سے سردار جاوید اختر کا زرعی رقبہ متاثر ہوا۔

پی پی 288سے پی ٹی آئی سردار سیف الدین کھوسہ نے بات کرتے ہوئے بتا یا کہ یہاں فصلوں کو
نقصان دو طرح سے ہوا ۔

مون سون کی بارشیں آنے سے پہلے یہاں نہری نظام بند کر دیا جاتا ہے تاکہ کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والا پانی ان نہروں سے گز سکے ۔اگست کےشروع میں نہری پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں چاول کی فصلیں کاشت ہی نہیں ہوئی۔دوسری بڑی تباہی اس بار پانی کا
بہاؤ اتنا تیزتھا کہ بڑی کنالز مختلف جگہوں سے ٹوٹ گئیں جس سے کھڑی فصلیں تباہ ہو ئیں ۔

انکےمطابق اس حلقے کو سیلابی پانی سے دیہی علاقہ قریباً60فیصد نقصان ہوا ہے جبکہ شہری علاقہ محفوظ رہا۔ وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل کا حلقہ این اے191 سیلاب سےزیادہ متاثر نہیں ہوا۔

این اے 192قومی اسمبلی کا حلقہ یہاں پر بھی ایم این اے سردار محمد خان لغاری اور ایم پی اے سردار محمد محی الدین کھوسہ دونوں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ڈیرہ غازی خان سے صرف ایک نشست پی پی 292سے مسلم لیگ ن کے سردار اویس احمد خان لغاری کے حصے میں آئی تھی ۔

اس حلقے میں اویس احمد خان کی ذاتی زمینیں بھی متاثر ہوئیں ہیں ۔ٹیلفونک انٹرویو میں سردار محی الدین نے کہا کہ یہ حلقہ 60 سے 70 فیصد تک متاثر ہوا ہے انہوں نے مزید کہا کہ میرا حلقہ چونکہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے تویہاں کاشتکاری کا نظام کو 70فیصد نقصان ہوا ہے۔

سیلاب کے بعد عوام کی امداد کے لئے حکومت اور بہت سی فلاحی تنظیموں نے سیلاب متاثرین کے لئے ہر طرح کا ریلیف دیا ۔

مقامی صحافی سراج خان کا کہنا ہے کہ حکومت اور فلاحی اداروں کو چاہیے کہ یہاں لوگوں کو گھربنا کر دیں تاکہ موسمی تبدیلی جس میں سردی کا آغاز ہو چکا ہے یہ یہاں کی عوام کے لئے دوسرا بڑا عذاب ہے۔ کوہ سیلمان کے پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے اس علاقے میں موسمی تبدیلی سب سے پہلے رونما ہوتی ہے ۔

ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان انور بریارنے کہا کہ 20لاکھ ایکٹر رقبہ جس میں سے کوہ سلیمان کا 54فیصد حصہ بنتا ہے ، ماضی میں اس سے پہلے اس سال میں ہونی والی بارش 800ملی میٹر کبھی نہیں پڑی جس سے ضلع ڈیرہ ضازی خان کا 50فیصد سے زیادہ علاقہ تباہ ہوا۔انہوں نے مزید وہاں کی موجودہ صورتحا ل کے بارے میں بتایا کہ کہ یہاں کے لوگ اس سسٹم کے عادی ہو گے ہیں.

انہیں پتہ ہے مون سون کی بارشوں میں انہیں ایسے مسائل کا سامنا ہو گا۔ جس کی وجہ سے وہ پہلے ہی بڑی حد تک اپنا مناسب بندوبست کر لیتے ہیں جبکہ زیادہ نقصان ان لوگو ں کو ہوتا ہے جو رد کوہیوں کے راستے کے کنارے پر رہائش پذیرہوتے ہیں انہیں پانی کا تیز بہاؤ سب سے پہلے متاثر کرتا ہے ۔
اس بار حکومت نے وقت سے پہلے ہی ضلع کی عوا م کو آغا کر دیا تھا جس سے شہری علاقوں کو بند لگا کر محفوظ اور دیہی علاقوں کی عوام کو حکومتی سرپرستی میں نقل مکانی کروائی گئی تھی۔

ضلع راجن پور قومی اسمبلی کی3 نشستوں پر پی ٹی آئی کے ایم این ایز نمائندگی کر رہے ہے این اے193سےسردار محمد جعفر خان لغاری جبکہ دوصوبائی نشستوں پی پی 293 محسن خان لغاری اور پی پی 294 سردار حسنین بہادر دیشک ہیں۔اس حلقے میں تحصیل جام پورسیلابی پانی سے متاثرنہیں ہوئی ۔

درکوہی کا سیلابی ریلہ قبائلی علاقوں سے ہوتا ہوا اس حلقے سے گزرتا ہے۔اس حلقے میں تین بڑی رد کوہیاں ، کاہ سلطان، چھاچھڑ،رد کالابگا کھوسٹرہ گزرتی ہیں ۔

قومی اسمبلی کے اس حلقے میں جام پور سٹی اور محمد پور کے علاقے متاثر نہیں ہوئے جبکہ باقی سارا علاقہ زیر آب آیا۔ ایم پی اے محسن خان لغاری کے ٹیلی فونک انٹرویو میں بتایا کہ اس سال کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے آنے والا پانی 100 سالہ تاریخ بھی نکالے تو بھی نہیں ملے گا ۔
انہوں نے کہا کہ پہاڑیوں سے پانی آنا ایک قدرتی عمل ہے مگر اس کے راستے میں اگر رکاوٹیں ہو نگی تو تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔

پچھلے کئی دہائیوں سے پانی کم مقدار میں میدانی علاقوں میں آتا تھا جس سے رد کوہیوں کے بیشتر علاقے خشک رہتے تھے جس کی بناء پر وہاں لوگوں نے ان رو کوہیوں کے کناروں پر آبادی کاری شروع کر دی ۔

پانی کو اس کا اصل راستہ نہ ملنے کی وجہ سے تباہی زیادہ ہوئی انکے مطابق دیہی علاقہ 80 فیصد تباہ ہواہے۔

این اے 194یہ حلقہ 80فیصد سیلاب سے متاثر ہوا ہے ۔حلقے میں تحصیل راجن پوراور تحصیل جام پور کے علاقے بھی آتے ہیں ۔پی ٹی آئی کے ایم این ے سردار نصر اللہ دریشک ،ایم پی اے سردار محمد اویس دریشک اور سردار فاروق امن اللہ دریشک بھی تحریک انصاف سے اس حلقے میں نمائندگی کے رہے ہیں۔

مقامی رپورٹر امین ک انجم کاکہنا ہے کہ اس حلقے میں سب متاثر ہونے والا کاروباری علاقہ جس میں میونسپل کمیٹی فاضل پور متاثر ہوئی ہے ۔دریائے سندھ سے کوہ سلیمان کی پہاڑیوں تک کا تمام علاقہ پانی میں ڈوب گیا ہے۔

صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل تحصلوغ کے شہری بھی متاثر ہوئے ہیں کیونکہ وہان کی عوا م تحصیل فاضل پور سے خرید و فروخت کے لئے بھی آتےہیں ۔

اس حلقے میں شہری علاقہ پی پی 269سیلا ب میں زیادہ متاثر نہیں ہوا۔ این اے 195اس حلقے میں پی ٹی آئی کے سردار ریاض محمود خان لغاری ایم این اے جبکہ پنجاب کے سابق ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد خان مزاری بھی اسی حلقے میں آتے ہیں۔

اس حلقے کے مشرقی علاقے دریائے سندھ کے ساتھ لگتے ہیں، دوسری طرف تحصیل روجھان کو تین ردکوہیاں سوری شمالی ،سوری جنوبی اور زنگی متاثر کرتی ہیں۔

اس حلقے کوٹ مٹھن شریف کا علاقہ محفوظ رہا جبکہ مضافات کے علاقے ڈوب گئے۔

ایم این اے سردار ریاض محمود نے ٹیلی فون انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ نقصان میرے حلقے کا ہوتا ہے کیونکہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور دونوں کا سیلابی پانی میری تحصیل روجھان سے ہو کر گزرتا ہے ۔

تحصیل روجھان صوبہ پنجاب کی آخری تحصیل ہے جو کہ دریائے سندھ کے ساتھ منسلک ہے۔

یہاں سےپانی کی سب سے زیادہ تباہی اس لئے ہوتی ہے کہ حکومت پانی کے چینلز کو اپ گریٹ نہیں کرتی ۔
سب سے بڑا مسئلہ جس پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے کہ یہاں درکوہیوں کے قدرتی ا ور قدیمی راستوں کو بحال کیا جائے تاکہ ہمارے علاقے میں اتنی تباہی نہ ہو۔

انکے مطابق اس حلقے کو 80فیصد سیلاب سے نقصان ہوا ہے مگر پنجاب حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میرے علاقے کی عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔میرے پاس افسوس کے سوائے کوئی الفاظ نہیں۔

کوہِ سلیمان ریجن میں 13 بڑی رود کوہیاں (Hill Torrents) ہیں جن میں سالانہ لاکھوں کیوسک پانی آتا ہے جوکہ راجن پور، ڈیرہ غازی خان میں سیلاب کا باعث بنتا ہے۔کوہ سلیمان کی پہاڑیوں کاپانی انہیں رد کوہیوں سے ہوتا ہوا دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔اصل مسئلہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والا پانی نہیں بلکہ پانی کے راستوں کو ذاتی مفادات کی خاطر بند کرنا ہے۔

اگر حکومت اس مسلئے کی طرف توجہ دے تو آئندہ آنے والی مون سون کی بارشوںکے بعد ان دو اضلاع میں اتنی تباہی نہ ہو

12540923_909432299134201_8337824003794595425_n

خانہ بدوش : ہم وہ مسافر ہیں جن کی کوئی منزل نہیں کوئی گھر نہیں

شمع صدیقی

کالم نگار

قارئین آج ہم بات کریں گے کچھ اپنے ایسے ہم وطنوں کی جو مسلسل نظر انداز ہو رہے ہیں ۔جی ہم بات کررہے ہیں اپنےان ہم وطنوں کی جن کو عام زبان میں خانہ بدوش کہا جاتا ہے اور ہم خود بھی ان کو اسی نام سے پکارتے ہیں ۔

جی یہ خانہ بدوش لوگ ہیں جو ہمیشہ سفر کی حالت میں رہتے ہیں ان کا کوئی اپنی ذاتی ملکیت کا گھر بار نہیں ہوتا، ان کا کہنا ہے کہ نہ ہی ہماری کوئی زمین ہے اور نہ کوئی چھت ہمارے سروں پر ہے ہم کہیں بھی جائیں وہاں ہم چاہے دس دن رہیں یا ایک ماہ ہم مسافر ہی رہیں گے، یہ مسافت کتنے دن کا ہے؟ کب تک ہے ہمیں معلوم نہیں ۔

ہماری کیا ضروریات ہیں کبھی کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی ۔ہمارے خاندان میں کتنے لوگ ہیں؟ ہمارہ ذریعہ معاش کیا ہے؟ اس سے بھی کسی کو کوئی سروکار نہیں ، ہم کتنی مشکلات سے اپنے بچوں کے ساتھ ایک مشکل زندگی گزار رہے ہیں ، یہ بھی کبھی کسی نے جاننےکی کوشش نہیں کی…! آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہم کس طرح مشکل سے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

یہ بات یقینا آپ کے علم میں بھی ہو گی کہ خانہ بدوش دنیا کے زیادہ تر ممالک میں اس وقت بھی موجود ہیں اور بہت سے ممالک میں حکومت ان کی سرپرستی بھی کرتی ہے وہ اس طرح کہ اگر کسی خانہ بدوش خاندان نے کسی ایسی جگہ پر جہاں سبزہ اور پانی موجود ہے اور انہوں نے وہاں اپنی جھگیاں ڈال لیں ہیں تو ان کو حکومت کی جانب سے وہاں رہنے کی اجازت دے دی جاتی ہے کہ وہ وہاں جب تک رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں اور اس جگہ پر کوئی تعمیراتی کام نہیں کروا سکتے کیونکہ ان کے ساتھ ان کے سفر میں ان کے مددگار جانور بھی ہوتے جیسے گھوڑے خچر وغیرہ جو ان کا ضروریات کا سامان لاد کر ان کے ساتھ چلتے ہیں اور جانوروں کا اور ان کا ہمیشہ کا ساتھ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ان کے ساتھ ان کے گھر کے باورچی خانے کو چلانے کے لیےان کے بھیڑ بکریاں وغیرہ ہوتی ہیں اور یہ ان کا دودھ بیچ کر گزارہ کرتے ہیں اور مقامی لوگوں پر تازہ دودھ اور مکھن بھی فروخت کر کے اپنا گزارہ بھی کرتے ہیں ۔اور اسی طرح اپنے جیون کی گاڑی کو رواں دواں رکھتے ہیں ۔

مگر اس خانہ بدوش والی زندگی میں بے شمار محرومیوں کا شکار بھی ہوتے ہیں جیسے تیسے کر کے یہ اپنے بچّوں کو خوراک اور کپڑے تو مہیا کر دیتے ہیں مگر زندگی کی بہت سی بنیادی چیزوں سے محروم رہتے ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے ۔

ہمارے ہاں خانہ بدوش کی آ بادی جو کہ تین سے چار سو لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے ان کو ہمیشہ گندے نالوں کے قریب آباد دیکھا گیا ہے جہاں یہ رہ رہے ہوتے ہیں اور یہ ان جگہوں پر رہنے پر مجبور ہیں جو قوانین کے سخت خلاف ہے ۔جس سے انکی صحت خراب رہتی ہے اور یہ وہی گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں ڈاکٹر بھی ان کو میسر نہیں ہوتا وہیں ان کے جانور ہوتے ہیں جو ایک ہی فضا میں سانس لے رہے ہوتے ہیں ۔

اس کے علاوہ ان کی تعلیم کا بھی کوئی سسٹم نہیں ہوتا جو کہ ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ ان کے شناختی کارڈ بھی بنوائے جاتے ہیں تو اس حساب سے ان کا حق بھی زندگی کی تمام سہولیات پر ہونا چاہیے تاکہ ان کے بچے بھی تعلیم حاصل کر کے پاکستان کے باعزت شہری بن کر ایک اچھی اور کامیاب زندگی گزار سکیں ۔

یہاں ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک میں جہاں بھی خانہ بدوش آ باد ہوں حکومت کی طرف سے ان کے بچوں کو کتابیں اسکول بیگ اوراسکول کے یونیفارم مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اسٹوڈنٹس کی ڈیوٹیز لگائی جائیں تاکہ یہ جہاں بھی ہوں وہی پر یہ تعلیم کے ساتھ کچھ ہنر بھی سیکھتے جائیں ۔پڑھنا لکھنا ہر ایک کا حق ہے اور یہ بھی علم حاصل کرنا چاہتے ہیں جس میں ہم سب کو مل کر ان کا ساتھ دینا ہو گیا اور یہ وقت کی ضرورت ہے ۔

ایک ایسی ہی مثال گجر خان کی نازنین کی ہےجنہوں نے تین مضامین میں ماسٹرز کر کے اپنا ایک منفرد مقام حاصل کیا جو کہ سب کے لیے اور خانہ بدوشوں کے لیے قابل فخر بات ہے اور انہوں نے کتنی مخالفت کا سامنا کیا ان کو اور ان کے والدین کو ساری خانہ بدوش برادری نے چھوڑ دیا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور کامیابی حاصل کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔یہ سب کے لیے ایک بہت بڑی مثال ہے۔

وہ اب یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں بھی زندگی بہترین گزارنےکے لیے حکومتی سطح پر تمام سہولیات میسر ہونی چاہیں کہ یہ ہمارہ حق ہے اور دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں حکومت کی طرف سے گھر مہیا کیے جائیں تاکہ ہم بھی بہتر زندگی گزار سکیں ۔ کیونکہ ہمارے مسائل زیادہ ہیں ہمیں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم راتوں کو سکون کی نیند بھی سو نہیں سکتے کیونکہ ہمارے ساتھ خواتین اور بچیاں بھی ہوتیں ہیں ۔جن کی حفاظت کی خاطر ہم رات رات بھر جاگتے ہیں کیونکہ یہ کپڑوں کی بنی جھگیاں ہمارے خاندان کی حفاظت لیے کافی نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم وہ مسافر ہیں، جن کی کوئی منزل نہیں کوئی گھر نہیں مگر اب ہم چاہتے ہیں کہ ایک پاکستانی شہری ہوتے ہوئے ہمارے لیے ان تمام سہولیات کا ہونا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے ہم حکومت وقت کے انتظار میں ہیں کب کوئی ہماری آ واز پر لیبک کہے گا

میڈیا ہاوسز میں بریسٹ فیڈںگ کارنرز کا قیام وقت کی ضرورت

رخسانہ مسرت

اکثر اوقات خواتین صحافی میڈیا ہاوسسز میں جہاں دیگر بنیادی سہولیات کے فقدان کی شکایات کرتی پائی جاتی ہیں وہیں خواتین صحافیوں (جو مائیں ہیں) کو بچوں کو بریسٹ فیڈنگ کے لئے مناسب سہولیات کا بندوبست موجود نہیں اور نہ ہی جگہ مختص کی جاتی ہے۔
صحافی بچوں، ماؤں اور کمیونٹی پر بریسٹ فیڈنگ کے فوائد کو اہم بتانے کے لیے کام کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بچوں کو جتنا زیادہ عرصہ بریسٹ فیڈنگ کرائی جاتی ہے، ماؤں اور ان کے بچوں کو اتنے زیادہ صحت کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

لہذا آجکل، زیادہ تر مائیں اپنے بچوں کو اس وقت تک بریسٹ فیڈ کرانا چاہتی ہیں جب تک حالات اجازت دیتے ہیں۔
بریسٹ فیڈنگ مائیں اپنے بچوں کے ساتھ شاپنگ مالز، کیفے اور تفریحی مراکز سہولیات میں جاتی ہیں یا وہ ملازمت پیشہ ہیں تو دیگر اداروں سمیت میڈیا ہاوسز میں بھی اس کا بندوبست نہیں ہے۔

حالانکہ ان عوامی مقامات پر اکثر اپنے بچے کو براہ راست بریسٹ فیڈ کرانے کی ضرورت ہوتی ہے اور میڈیا انڈسڑی سے وابستہ خواتین سمیت تمام ورکنگ وویمنز اس سہولت کی فراہمی کی خواہاں ہیں۔

پبلک مقامات پر بریسٹ فیڈنگ کے خواتین کے زیادہ تر تجربات منفی ہیں، صحافی جو اس مسئلے کاشکار ہیں یا ان کو سامنا کرنا پڑا انہوں نے کچھ جگہوں پر عملہ کے رویہ اور سہولیات میں بہتری لانے کی ضرورت سے متعلق بتایا ہے کہ کمیونٹی عوامی مقامات پر بریسٹ فیڈنگ کے دوستانہ ہونے سے متعلق جتنی زیادہ معاون ہو گی، اتنا زیادہ مائیں دودھ پلانے کے قابل ہوں گی اور بچے صحت مند ہوں گے۔

2013 میں محکمہ صحت کے ایک سروے کے مطابق تقریباً 60 فیصد ماؤں نے عوامی جگہوں پر براہ راست بریسٹ فیڈنگ کرائی تھی تاکہ وہ اپنے بچوں کی ضروریات تئیں مناسب طور پر ردعمل دے سکیں۔

ان ماؤں میں جنہوں نے کبھی عوامی جگہ پر بریسٹ فیڈ نہیں کیا، نصف نے ایسا کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
“بریسٹ فیڈنگ دوستانہ احاطے “ایسی جگہ ہے جہاں دودھ پلانے والی مائیں اور ان کے خاندان کسی بھی وقت، کہیں بھی بریسٹ فیڈنگ کرانے کے لئے خوش آمدید محسوس کرتے ہیں اور مدد حاصل کرتے ہیں۔

عملہ کی جانب سے مندرجہ ذیل معاون اقدامات کو اپنانے کی سفارش کی جاتی ہے جیسا کہ “بریسٹ فیڈنگ کے لئے جگہ کا انتخاب کرنے سے متعلق ماں کی آزادی کا احترام کریں۔

ایک دودھ پلانے والی ماں کے کام میں مداخلت نہ کریں، جیسا کہ اسے ڈھانپنے، رک جانے، یا کسی اور جگہ پر چلے جانے کا مت کہیں۔

ایک ماں کو ایک مناسب جگہ کی پیشکش کریں جو بریسٹ فیڈ کرنے کے لئے زیادہ رازداری کی خواہشمند ہو، جہاں تک قابل عمل ہو، مثال کے طور علیحدہ سے سیٹ جو داخلی مقام سے زیادہ دور ہو۔

بریسٹ فیڈ کرانے والی ماؤں اور بچوں کی ضورریات تئیں معاون بنیں، مثال کے طور پر، دوسرے کسٹمرز کے سامنے ان کی صورتحال کی وضاحت کریں۔

جبکہ میڈیا انڈسٹری میں ملازمت پیشہ خواتین نے شکوہ کیا کہ “ماؤں کو اپنے بچوں کو ٹوائلٹ میں بریسٹ فیڈ کرانے کا کہنا نامناسب بات ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے۔

جس سے بچے اور ماں کی صحت کے خدشات بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔ صحافی خاتون نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک نامور اخبار میں بطور میگزین ایڈیٹر فرائض انجام دے رہیں تھی.

جب وہ ماں بنی تو ادارے نے بجائے بنیادی سہولیات دینے کے ان کو رپورٹنگ میں ٹرانسفر کردیا اور جس وجہ سے کوریج پہ جانا پڑتا تھا.

بطور میگزین ایڈیٹر جو ان کے پاس الگ جگہ تھی وہ بچے کو باآسانی فیڈ کروا سکتی تھیں وہ بھی چھن گئی اور دن بدن پریشان کیا جاتا کہ یہ یہاں سب کے سامنے کیوں نہیں بیٹھتی اور پھر جبری طور پر ان سےا ستعفی لے لیا گیا کہ آفس شہر سے باہر شفٹ ہو گیا ہے اپ بچے کے ساتھ مسائل کا شکار ہیں حالانکہ دیگر رپورٹر گھر سے کام کر رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر صحافی خواتین جو شادی شدہ ہیں ان کو سہولیات دے دی جائیں اور فیڈنگ کارنرز بنا دئیے جائیں تو کارکردگی متاثر نہیں ہو گی اور نہ میڈیا انڈسٹری میں ملازمت پیشہ خواتین کو ملازمت سے ہاتھ دہونے پڑیں گے۔

فیڈینگ کارنرز کے قیام کے حوالے سے جب ایک میڈیا ہاوس کے ڈائریکٹر ہیومن ریسورس سے بات ہوئی تو انہوں نے ادارے اور اپنا نام شائع نہ کرنے کی شرط پہ کہا کہ ایسا کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ خواتین اس مسئلے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔

خواتین خود ہی مینج کر لیتی ہیں۔ بیشتر خواتین شادی کے بعد ملازمت ہی جاری نہیں رکھ پاتی تو یہ تو بعد کے مسئلے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر خواتین کی زیادہ تعداد کی ہو تو دفتر میں تو یہ کارنر بنائے جا سکتے ہیں 

WhatsApp-Image-2022-09-22-at-12.59.18

اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن کی خواتین اراکین

عمرانہ کومل

عدالتی معاملات ’خواہ سیاسی مقدمات ہوں، کرپشن کیس ہوں، وائیٹ کالر کرائم، خانگی یا پھر جرائم سے متعلق‘ بہت حساس ہوتے ہیں جن پر فریقین کے وکلا کی جرح، شہادتوں، ججز کی شنوائی اور فیصلوں سمیت دوران سماعت ریمارکس بعد از اپیلوں وغیرہ تک کی نوبت ہر سطح پر وکلا کی اپنے کلائنٹس کا تحفظ کرنے اور انصاف دلانے کی محنت جبکہ ججز کی جانب سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے مراحل میں ان کی لمحہ بہ لمحہ روداد عوامہ دلچسپی کی خبریں صحافتی رموز واوقاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے ناظرین و قارئین تک پہنچانا “عرق ریز محنت” کا کام ہے ۔

کورٹ رپورٹنگ میں محنت کرنے والے صحافیوں کا شمار قانون کی باریکیاں سمجھنے والوں میں ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں خواتین صحافت کی مختلف بیٹس (شعبوں) میں اپنا نام بنا رہی ہیں وہاں ہماری خواتین صحافی عدالتی رپورٹنگ میں بھی نام پیدا کر رہی ہیں ۔ ہر قسم کے کیس کی رپورٹنگ چیلنج سمجھ کر کرتے ہوئے اس بیٹ سے انہیں اس قدر لگاؤ ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ بیٹ خواتین کے لئے ہی ہے۔

فرح کیانی اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن کی جوائنٹ سیکرٹری ہیں وہ بتاتی ہیں کہ ہائی کورٹ کی رپورٹنگ کے دوران مجھے ڈسپلن سیکھا۔ عدالت میں وقت پر پہنچنا، اہم مقدمات کا وقت اور تاریخ نوٹ کرنا، مقدمات کا مکمل فالو اپ رکھنا اور عدالتی کاروائی سمجھنے کے لئے چوکنا رہنا ہی عدالتی رپورٹنگ میں کامیابی کا راز ہے۔

فرح بتاتی ہیں کہ پیشہ وارانہ فرائض کے دوران عورت ہونے کے ناطے بہت سے کیسز مجھے حساس بھی بنا دیتے ہیں جن وجہ سے وہ دل لگا کر کام کرتی ہوں۔
انہوں نے ایک مقدمہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کیس میں جب وہ صحافی مظفر نارو کیس میں ان کا تین سال کا بیٹا دیکھتی ہیں تو انہیں دکھ ہوتا ہے کہ اس کے والد لاپتہ ہوگئے اور ماں صدمے سے اس دنیا میں نہیں رہی۔ اسی طرح نور مقدم قتل کیس، سات سالہ فرشتہ بی بی زیادتی و قتل کیس، معصوم بچی کے جلائے جانے جیسے کئی کیسز کسی بھی خاتون رپورٹر کو حساس بناتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کیسز کی رپورٹنگ کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتی ہیں۔
فرح کہتی ہیں کہ چونکہ وہ بھی ماں ہیں اور وہ اکثر اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کو ساتھ لے آتی ہیں۔ تاہم بڑے کیسز کی سماعت کے دوران جب تمام دن کھڑے رہنا پڑتا ہے وہ بچے کو گھر چھوڑ کر آتی ہیں۔
فرح بتاتی ہیں کہ وہ اور ان کے شوہر دونوں ہی صحافی ہیں اور دونوں عدالتی رپورٹنگ کرتے ہیں اس لئے فیملی میں انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ وہ کہتی ہیں چونکہ ہائی کورٹ کی تمام عدالتیں ایک ہی عمارت میں ہے اس لئے انہیں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور رپورٹر ایسویسی ایشن کی وجہ سے ہمیں کیسز سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
فرح کہتی ہیں کہ عدالتی رپورٹنگ میں نئے آنے والی خواتین کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن ان کو یہ سمجھنا چاہئیے کہ صحافت جُز وقتی نہیں ہے یہ پورا وقت مانگتی ہے۔ بہت سی مشکلات آ رہی ہیں لہذا خواتین صحافیوں کو اب اپنی مہارتیں دیگر شعبوں میں بھی آزمانی ہوں گی کیونکہ یہاں مواقعوں میں کمی آ رہی ہے۔

نیلم ارشد ایک ٹی وی رپورٹر ہیں وہ کہتی ہیں کہ مجھے فخر ہے کہ میں عدالتی رپورٹنگ کرتی ہوں جہاں صنف نازک جیسا احساس نہیں رکھا جاتا۔

ہم مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہیں اور بریکنگ نیوز بھی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی مقدمات میں منفرد خبر کے لئے جھمگھٹوں میں بھی جانا پڑتا ہے اور لوگ تعاون کرتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں پیش آیا اور اس کی بڑی وجہ ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن بھی ہے کیونکہ ہمارا اتحاد ہمیں پیشہ وارانہ بنیادوں پر بھرپور سپورٹ کرتا ہے۔
نیلم کہتی ہیں کہ ہم نے ایک ایک کیس کی کوریج کے لئے کئی گھنٹوں کھڑا رہ کے فرائض کی انجام دہی کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ محنت ہی کامیاب کیرئیرکی ضمانت ہے۔
میں (عمرانہ کومل) خود بھی عدالتی رپورٹر ہوں میرا ماننا ہے کہ کسی بھی شعبہ میں قدم رکھنے سے پہلے جب تک ہمارا خاندان ہمارے ساتھ نہ ہو اس وقت تک پُراعتماد ہو کر کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ میرے والدین نے پُر خطر ترین واقعات کی انویسٹی گیشن رپورٹنگ میں میرا حوصلہ بڑھایا جو ناقابل فراموش ہے۔

اس کے ساتھ ملازمت کے لئے آپ کا انٹرویو اور امتحان ہوتا ہے لیکن عدالتی رپورٹنگ کا مطلب قانون پر عبور حاصل ہونا ہے۔ میں نے ملتان کی فیملی کورٹس، سیشن عدالتوں اور ہائی کورٹس میں خواتین کے حساس معاملات پر رپورٹنگ کی جن میں تیزاب گردی، غیرت کے نام پر قتل، ونی، پنچایت کیسز، بھٹہ مزدوروں اور انسانی حقوق کے مقدمات کی تحقیقاتی رپورٹس بناتی تھی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ قانون کی تعلیم ضروری ہے لہذا عدالتی رپورٹنگ کو بھرپور انداز میں کرنے کیلئے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
انسانی حقوق کمیشن، ملتان ٹاسک فورس اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے فورمز کی گرانقدر شخصیات عاصمہ جہانگیر، سید سجاد حیدر ذیدی، راشد رحمان خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سمیت سینئر صحافیوں اور وکلا سے سیکھنے کا موقع ملا.
اب میں گزشتہ 6 سال سے اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹنگ کر رہی ہوں اور اس دوران ہر سطح پر نئے تجربات کا سامنا رہتا ہے خاص طور پر حساس مقدمات میں ان کیسز کی چھان بین کے لئے فریقین کے وکلا کے نکات اور کیسز میں دفعات سمیت یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ ہم نے متاثرہ فریقین کی شناخت کتنی کرنی ہے .
خاص طور ایسے مقدمات میں اقلیتی برادری کی لڑکیوں کی جبری شادیوں جیسے حساس نوعیت کے انسانی حقوق کے مقدمات ہیں۔
ایسے میں عزت مآب ججز کے ریمارکس اور کاروائی پر بھرپور نظر رکھنے سمیت قانون پر بھی گرفت ضروری ہے کیونکہ ہر کیس میں سیکھنے کیلئے بہت کچھ نیا ہوتا ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن کی یہ کامیابی ہے جس کی بدولت ہمیں میڈیا روم بھی میسر ہے اور کورٹ میں انٹری بھی مسئلہ نہیں رہتا۔
ہماری ایسوسی ایشن کی یہی کامیابی ہے کہ ہمارے جب بھی انتخابات ہوتے ہیں خود چیف جسٹس صاحب کی جانب سے نہ صرف تہنیتی پیغام آتا ہے بلکہ ہائی کورٹ کے ہال میں ہماری حلف برداری ہوتی ہے جس میں وکلا برادری شریک ہوتی ہے جبکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ ہماری ایسویسی ایشن سے گاہے بگاہے ملاقات کرتے ہیں جن سے صحافت کے رموز و اوقاف سیکھنے کا موقع ملتا ہے .
میں سمجھتی ہوں کہ عدالتی رپورٹنگ لائف ٹائم اپنانے کے لئے جنون ضروری ہے خود کو نیا سیکھنے کے لئے تیار کرنا ہوگا۔

عنبرین علی کہتی ہیں کہ چار دیواری پر محیط ہماری بیٹ مجھے بہت پسند ہے یہاں روزانہ کی بنیاد پر نیا کیس آنا کچھ نیا سیکھنا ہر وقت چوکنا رہنا ہے یہ بیٹ خواتین اور مرد حضرات کی صلاحیتیں منوانے کا بھر پور موقع فراہم کرتی ہے ۔

عمبرین علی کا ماننا ہے کہ ہمارے رپورٹرز کو جہاں کورٹس میں انٹری، وی آئی پی کیسز کی رپورٹنگ کے لئے انٹر پاس ادارے کے ساتھ ساتھ بطور کورٹ رپورٹر خود کو منوانے جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے ایسے میں ہماری ایسویسی ایشن ہر سطح پر ہمارے شانہ بشانہ رہتی ہے۔
ایسویسی ایشن میں ہم خواتین کو انتخابی عمل اور مشاورت میں نمائندگی ملتی ہے۔
عنبرین علی لائیٹر موڈ میں کہتی ہیں کہ انہیں عدالتی رپورٹنگ کرتے ہوئے سات سال ہوئے ہیں ۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ بیٹ جینڈر فرینڈلی ہے.
کیونکہ ایک تو ہم ہائی کورٹ کی چاردیواری میں ہیں ہمارا اپنا میڈیا روم ہے جبکہ واش روم جیسے مسائل بھی نہیں اور بھاگ دوڑ فیلڈ کرتے ہوئے جلد پر اثر نہیں پڑتا۔ ایسے میں ہم کام پر زیادہ فوکس رکھتے ہیں۔
ٹی وی رپورٹر آسیہ کوثر کہتی ہیں کہ میری فیورٹ بیٹ کرائم ہے لیکن ہائی کورٹ بیٹ کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔

یہاں اکثر حساس مقدمات کی رپورٹنگ کے دوران پولیس، فریقین اور رپورٹرز میں تناؤ کی سی صورتحال بھی ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات رپورٹرز کو بھیڑ کی وجہ سے سپاٹ پر بھی نہیں جانے دیا جاتا جبکہ ہر قسم کی رُکاوٹ ہماری ایسویسی ایشن کے عہدے دار معاملہ فہمی سے دور کرتے ہیں جو قابل تعریف ہے ۔
ان کا کہناہے کہ خواتین ہوں یا مرد اس بیٹ میں یہ جان کر آئین کہ یہاں صرف محنتی لوگوں کی جگہ ہے ۔ آسیہ کوثر کا ماننا ہے عدالتی رپورٹنگ میں ایک فل سٹاپ کی غلطی بھی کیرئیر تباہ کر دیتی ہے ہر لفظ پر محتاط رہنا پڑتا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے منسلک مونا خان کا کہنا ہے کہ میں قانون کی طالبعلم نہیں رہی تاہم میں نے رپورٹنگ کا آغاز سپریم کورٹ رپورٹنگ سے کیا جو حساس اور مشکل مانی جاتی ہے۔

مونا خان ہائی کورٹ رپورٹرز ایسویسی ایشن کی نائب صدر بھی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ رپورٹنگ کے دوران انہوں نے سیکھا ہے کہ بطور کورٹ رپورٹر مختلف قوانین کا پی ڈی ایف سیل فون میں محفوظ ہونا چاہیئے۔
ان کا ماننا ہے کہ سینئرز نے پہلے پہل بہت مدد کی کیونکہ ہماری رپوٹنگ کے دوران غلطی کی گنجائش بالکل نہیں۔ اسی طرح مجھے عاصمہ جہانگیر، مخدوم علی خان، انور منصور ایڈووکیٹ سے سیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ جب چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی بطور وکیل انٹرویو کرنے کا موقع ملا ۔
مونا خان کہتی ہیں کہ اس بیٹ کو بطور کیرئیر اپنانے والوں کو میرا مشورہ ہے کہ صحافت کو محض کسی وٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے اور وٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرنے کی غلط فہمی میں نہ رہیں بلکہ خود سمجھ کر رپورٹ کرنا چاہئیے۔ زیر سماعت مقدمات اور قانون آپ کی فنگر ٹپس پر ہونے چاہئیں۔ ک
سی بھی پیٹیشن کو سمجھنے اور فوری خبر بنانے کی صلاحیت، فیصلوں اور ریمارکس کو پک کرنا آنا اور بروقت رپورٹنگ ہی ہماری ذمہ داری ہے۔
صدر اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹر ایسویسی ایشن ثاقب بشیر کہتے ہیں کہ ہماری ایسوسی ایشن کے 54 اراکین میں 6 خواتین ہیں یہ ایسویسی ایشن جو 2010 سے قائم ہے جبکہ 2017 سے زیادہ متحرک ہے۔

تنظیم میں خواتین کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی رویہ نہیں رکھا جاتا۔ گزشتہ دوسال سے جب سے میں صدر بنا یہی کوشش ہے کہ مشاورت اور انتخابی عمل میں ہماری ساتھی خواتین شامل ہوں۔
فیلڈ میں کسی بھی خبر کے سورسز یا کسی بھی اسٹوری میں اپنی ساتھی کولیگز سے پیشہ وارانہ سطح پر تعاون کیا جاتا ہے کیونکہ سب محنت کرنے والی خواتین ہیں ہمارا مثبت ورکنگ ریلیشن شپ ہماری ایسویسی ایشن کی کامیابی ہے

sv02_1

میڈیا ہاوسز میں خواتین واش رومز نہ ہونا ایک توجہ طلب مسئلہ

شازیہ نیئر

صحافی | کالم نگار

صحافی روزانہ بہت سے موضوعات پر آواز اٹھاتے ہیں اور ایسے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا حل ضروری ہو۔

لیکن ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کا شکار صحافی بھی رہتے ہیں اور ان کا تدارک ضروری ہوتا ہے۔ بطور خاتون کچھ ایسے مسائل موجود ہیں جن کی نشاندہی کرنا ناگزیر ہے۔

ہم اخبارات اور ٹیلی ویژن کے دفاتر اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے جاتے ہیں ۔ دفاتر میں ہم گھر سے زیادہ وقت گزارتے ہیں لیکن اگر دفاتر میں ہمارے لئے مسائل ہوں تو ہم اپنے کام پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتے۔

اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے شرط ہے کہ کام کی جگہ آپ کے لئے موزوں ہو۔ ہماری بہت سی خواتین اخبارات کے دفاتر میں اور ٹی وی چینلز میں کام کرتی ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دوسروں کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی یہ خواتین اپنے دفاتر میں مسائل کا شکار رہتی ہیں ۔

دفاتر میں خواتین کے لئے الگ بیت الخلا کا نہ ہونا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ٹی وی چینلز میں یہ مسئلہ قدرے حل کر لیا گیا ہے لیکن اخبارات میں کام کرنے والی خواتین کو ابھی بھی اس اہم ترین مسئلہ کا سامنا ہے۔ ہم نے ایسی خواتین صحافیوں سے بات کی جو اخبارات کے دفاتر میں 10 سے 12 گھنٹے تک کام کرتی ہیں لیکن بیت الخلا کی الگ سہولت نہ ہونے سے انکو کیا مسائل ہوتے ہیں انہیں اجاگر کرنے کی کوشش کی۔

اسلام آباد کے مختلف میڈیا ہاوسز میں کام کا تجربہ رکھنے والی خاتون صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جس بھی ادارے میں کام کیا کہیں پر بھی خواتین کے لئے الگ بیت الخلا موجود نہیں تھا۔ خواتین کو مردوں والے بیت الخلا کو ہی استعمال کرنا ہوتا تھا اور اکثر اوقات تو بہت دیر تک بیت الخلا کے باہر انتظار کرنا پڑتا تھا۔

صرف یہی نہیں بلکہ خواتین کے ماہواری کے ایام میں جو ہزیمت اٹھانا پڑتی تھی وہ ناقابل بیان ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سینٹری پیڈز کو پھینکنے کے لئے بیت الخلا میں کوئی کوڑا دان تک موجود نہیں ہوتا اور نہ ہی ہاتھ دھونے کے لئے صابن دستیاب ہوتا ہے ہمیں ہاتھ دھونے کے لئے صابن ہا ہینڈ واش گھر سے لانا پڑتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پانی زیادہ پینے کی وجہ سے بار بار رفع حاجت کے لئے درجنوں سیڑھیاں اترنا اور چڑھنا پڑتا رہا ہے۔

ایک اور خاتون صحافی نے اپنی شناخت چھپانے کے وعدے پر بتایا کہ بیت الخلا کے قیام کی جدوجہد کے بعد جب ہمارے ادارے میں خواتین کے لئے الگ بیت الخلا کا مسئلہ حل ہوا تو شام کے اوقات میں وہاں صنف مخالف کا قبضہ ہوتا اور مرد کولیگ نا صرف استعمال کرتے بلکہ سگریٹ سے اسکی دیواروں پر غیر اخلاقی نقش ونگار بھی بنا آتے۔

انکا کہنا تھا کہ ان سب باتوں پر ایک سینئیر افسر نے اپنا باتھ روم استعمال کرنے کی اجازت دی اور ایسے میں جو خاتون وہ بیت الخلا استعمال کرتی اسکا افسر کے ساتھ اسکینڈل بنا دیا جاتا کہ ہر وقت افسر کے کمرے سے برآمد ہوتی ہے۔ یہ صحافی خاتون مختلف اشاعتی اداروں کےساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔

ایک اور خاتون صحافی بتاتی ہیں کہ الگ بیت الخلا کے نہ ہونے سے بہت مسائل ہوتے ہیں۔ جیسے کے بار بار بیت الخلا کا دروازے پر دستک دینا زور زور سے بجایا جانا ہے اور دوران ماہواری خواتین کو بیت الخلا کے استعمال کے لئے انتظار کرنا بڑا مسئلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر کسی خاتون سیاست دان یا کسی اور خاتون کو اخبار کے دفتر انٹرویو کے لئے بلا لیا جائے تو انکو بھی مجبورا مردانہ بیت الخلاء میں جانا پڑتا ہے یا پھر مہمان خاتون کے لئے اعلی افسران کے کمرے کا بیت الخلا استعمال کرنے کی اجازت مانگی جاتی ہے جو کہ نہایت شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔

ان صحافی خاتون کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے اخبارات میں پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن انکو بیت الخلا کا استعمال نہیں آتا اور مردوں کے زیر استعمال بیت الخلا اکثر انتہائی گندے ہوتے ہیں۔

اسلام آباد سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ اخبارات کے زیادہ تر دفاتر میں خواتین کے الگ بیت الخلا کا تصور ہی موجود نہیں ہے جو آگاہی کا مسئلہ ہے اور جب ایک ہی بیت الخلا مرد و خواتین استعمال کر رہے ہوں تو بیت الخلا کے باہر انتظار کرتی خاتون کو ہر آتا جاتا گھور کر جاتا ہے جو کہ شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔

انکا کہنا ہے کہ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر نا صرف بات ہونی چاہئیے بلکہ ریاست کیس سطح پر اس مسئلے کے حل کے لئے کوششیں بھی ہونی چاہئیے۔

ایک بیت الخلاء کی سہولت نہ ہونا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چھوٹے چینلز اور اخبارات کے مالکان کی بھی ذمہ داری ہے کہ انکے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو یہ بنیادی سہولت فراہم کی جائے۔ سینئر صحافی فریدہ حفیظ کہتی ہیں کہ یہ مسائل انکھیں بند کر لینے اور ٹال دینے سے حل نہیں ہو سکتے۔

صحافت میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کام کر رہی ہے اور جہاں دیگر مسائل ہیں وہیں بیت الخلا بھی ایک اہم ہے جسکا حل ضروری ہے۔ اس بارے ریاست اور میڈیا مالکان کو سوچنا چاہئیے تاکہ خواتین کو یہ بنیادی سہولت میسر ہو سکے

170998882_4202730366405214_7090785289745885378_n

خیبر پختونخوا میں اب تک 9 فیصد خواجہ سرا غیرت کے نام پر قتل کئے گئے

ناہید جہانگیر

گھر اور معاشرے سے ایسا نفرت کیا جاتا ہے جیسے خواجہ سرا پیدا ہونا اللہ کی طرف سے نہیں ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہ کہنا ہے صوبیہ خان کا ۔

صوبیہ خان پشاور شہر گل برگ کی رہائشی ہیں جو مختلف ریڈیوز کے ساتھ ایک بروڈ کاسٹر کے طور پر کام کرتی ہیں اس کے علاوہ وہ ڈی آر سی کی ممبر بھی ہیں اور اپنی کمیونٹی کےحقوق کے لئے کام کرتی ہیں۔

صوبیہ خان کی اس بات پر کہ یہ تو اللہ تعالی کی طرف سے پیدا کردہ لوگ ہیں اس میں انکا کیا قصور ہے کہ حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ریسرچر ڈاکٹر غلام ماجد نے بتایا کہ
قران پاک میں 2 ہی جنس کا ذکر ہوا ہے مرد اور عورت ، جبکہ قران میں تیسرے جنس کا کوئی ذکر نہیں آیا ہے ۔ جہاں تک تیسری جنس کا تعلق ہے تو میڈیکل کی رو سے یہ ایک فالٹ ہوسکتا ہے جیسے بعض بچے پیدائشی طور پر صحت مند ہوتے ہیں جبکہ بعض بچوں میں جسمانی نقص جیسے ہاتھ پاوں وغیرہ میں فرق ہوتا ہے اور معذور پیدا ہوتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں پچھلے کئ سالوں خواجہ سراوں کو قتل کرنے کا رحجان بڑھ گیا ہے عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ان کو اپنے ہی دوست یا بوائے فرینڈ ہی قتل کرتے ہیں جبکہ ان میں زیادہ تر خواجہ سرا غیرت کے نام پر بھی قتل کئے جاتے ہیں لیکن انکا ذکر نہیں کیا جاتا اس حوالے سے بلیو وینز( جو خواجہ سرا کے حقوق کے لئے کام کرتا ہے ) کے قمر نسیم کہتے ہیں کہ خواجہ سرا کے صوبائی تنظیم ٹرانس ایکشن کے مطابق 2015 سے لے کر اب تک خیبر پختونخوا میں تقریبا 83 خواجہ سرا قتل کئے گئے ہیں جس میں 80 فیصد اپنے ہی بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں جن کی مختلف وجوہات ہیں زیادہ ترلین دین ، دوستی ترک کرنے ، کوئی دوسرے بوائے فرینڈ کی طرف جانا جو پہلے والے کو قابل قبول نہیں ہوتا اس لئے قتل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح 7 سے 8 فیصد تک خواجہ سرا والدین یا رشتہ داروں کی طرف سے غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ پھر 8 سے 9 فیصد تک جنسی تعلق سے انکار کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔ 8 فیصد تک حادثاتی طور پر کسی معمولی تکرار کی وجہ لڑائی رونما ہوتی ہیں اور فائرنگ کے نتیجے میں مارے جاتے ہیں۔

قمر نسیم نے خواجہ سراوں کو انصاف نا ملنے کے حوالے سے بتایا کہ 99 فیصد خواجہ سرا کے قتل کے کیس کی پیروی نہیں کی جاتی ۔ خاندان والے بہت ہی کم رقم پر بھی صلح کر دیتے ہیں لاکھ تک رقم لے کر قتل کیس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔اس طرح دوسرے خواجہ سرا دوست صرف گلے شکوہ اور مظاہرے کی حد تک ساتھ دیتے ہیں آج تک کسی بھی خواجہ سرا نے عدالت میں پیش ہوکر گواہی نہیں دی ہے اور نا ہی انکے پاس اتنی رقم ہوتی ہیں کہ وکیل کی لاکھوں فیس ادا کرسکیں اور سالوں سال تک عدالت کے چکر لگا سکے اس لیے خواجہ سرا کے قتل کے کیسز بہت جلد بند ہوجاتے ہیں۔

خواجہ سراوں کے قتل کے رحجان بڑھ جانے کے حوالے سے صوبیہ خان نے کہا کہ جو طبقہ گھر سے ددھتکار دیا جاتا ہے اس کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے خاندان والے ہر قسم کا رشتہ ناطہ چھوڑ دیں تو بہت آسانی کے ساتھ جنسی، جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ بے دردی سے مار دئیے جاتے ہیں۔ خواجہ سرا کچھ سالوں سے کافی مشکلات سے دوچار ہیں ہر وقت اس ڈر و خوف میں رہتے ہیں کہ کب اور کیسے تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا یا مار دیے جائیں گے۔ کوئی سیکورٹی نہیں ہے گھر والوں کی طرف سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تو کوئی بھی خواجہ سرا کے ساتھ زیادتی کر سکتا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا پولیس پکڑ کر لے جائے گی اور بی بی اے کے بعد رہائی ہوگی اور متاثرہ خواجہ سرا یا خاندان والوں کو ڈرا دھمکا کر صلح پر راضی کیا جائے گا اور بات ختم ہوجائے گی۔

صوبیہ خان نے بتایا کہ خواجہ سرا کمزور طبقہ ہونے کی وجہ سے بہت آسانی کے ساتھ چاہئے دوست ہو یا خاندان میں سے کوئی مارے جاتے ہیں ۔ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اگر ایک بھی مجرم کو سزا دی جاتی تو دوسرا کوئی جرت نہیں کرسکتا تھا کہ چھوٹی سی بات پر قتل کر دیے جاتے لیکن صوبیا خان پوچھتی ہیں کہ پیدائشی نقص میں انکا کوئی قصورنہیں ہے وہ بھی اللہ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق ہیں حقارت اور نفرت نہ کریں اگر کل کو انکے گھر ایسا بچہ پیدا ہو تو وہ کیا کریں گے؟

اسلامک سکالر غلام ماجد نے پیدائشی نقص کے حوالے سے بتایا کہ اسلام اور میڈیکل کے مطابق ہر بچے میں کچھ علامات ہوتے ہیں جنکی بنیاد پر مرد یا عورت کہلاتا ہے۔ جس بچے میں عورت کے علامات غالب ہوتو عورت اگر مرد کے علامات ظاہر ہوتو مرد کہلاتا ہے۔ بہت کم ہی ایسے کیسز ہوتے ہیں جن کے مطابق آسانی سے فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔اسلامک سکالر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پشاور کی ایک مشہور گائناکالوجسٹ نے نام نا ظاہر کی شرط پر بتایا ہے کہ نامرد یا خواجہ سرا پر معاشرے میں بات کرنا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے اور یہ بہت کنٹروورشل سبجیکٹ ہے۔

انہوں نے خواجہ سرا کے جنسی نوعیت پر کہا کہ جب بھی نر اور مادہ کے جنسی کروموس ملاپ کرتے ہیں تو اگر ایکس وائے مل جائے تو لڑکا ہوگا اور اگر ڈبل ایکس ہوتو لڑکی ہوتی ہیں مگر بعض اوقات جنسی تعین والے کروموسوم میں ایک ایکس کی ایکسٹرا ہونے کی وجہ سے ڈبل ایکس وائے جڑ جاتے ہیں جسکی وجہ سے جسمانی ساخت اور ہارمونز میں قدرتی طور پر تقریبا 33 فیصد لڑکیوں والے کام آجاتے ہیں۔ مطلب دو حصے مرد اور ایک حصہ عورت ،33 فیصد نفسیات میں فیمیل کے رحجان کی وجہ سے ان کے احساسات فیمیل جیسا ہوجاتا ہے۔ ان کو جنسی اعضا کا واضح نا ہونا یا مکس ہونا کہا جاسکتا ہے لیکن دوسری جانب بعض مردوں میں کوئی جنسی نقص نہیں ہوتا لیکن وہ خواتین جیسے احساسات رکھتے ہیں اور قدرت کی دی ہوئی جنس کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے پھر وہ کوئی نفسیاتی مسلہ یا عارضہ ہوتا ہے۔

علیشہ جو مردان سے تعلق رکھتی ہیں گائناکالوجسٹ کی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ان کی کمیونٹی میں زیادہ تر شوقی ٹرانس جینڈر ہوتے ہیں وہ خود بھی ایک مرد ہے لیکن احساسات خواتین کی طرح ہیں جسکی وجہ سے اانکو خواتین کی طرح خود کو سنورنا اچھا لگتا ہے۔

سکالر ماجد نے اس سوال کے جواب میں کہ واقعی خواجہ سرا کی دعا یا بد دعا قبول ہوتی ہے کہ حوالے کہا کہ جہاں تک خواجہ سرا کے ساتھ کچھ باتیں منسوب کی جاتی ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ کہ جو والدین کوئی گناہ کریں یا پیچھے سے جنسی عمل کریں تو ان کے ہاں خواجہ سرا پیدا ہوتا ہے یا اگر کوئی بھی تیسری جنس کسی کو دعا یا بد دعا دیں تو قبول ہوگی جس کی وجہ سے لوگ ڈرتے ہیں ۔ اکثر جو خواجہ سرا بھیک وغیرہ مانگتے ہیں تو ہر کوئی بد دعا کی ڈر سے بھیک دے دیتے ہیں جس میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں مظلوم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں،اسکا مطلب یہ ہے کہ جو بھی مظلوم ہوگا اسکی بد دعا لگتی ہے اس لئے اگر تیسری جنس بھی مظلوم ہے تو دعا اور بد دعا لگے گی ورنہ نہیں۔

پولیس زرائع کے مطابق اب تک جتنے بھی خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں باقاعدہ ایف آئی آر درج کی جاتی ہے بہت سے مجرموں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے لیکن جب بات عدالت تک پہنچ جاتی ہے وہاں کوئی فالو اپ نا کرنے کی وجہ سے کیس بند ہوجاتا ہے یا خاندان والے نہیں چاہتے کہ بات آگے بڑھ جائے اس لئے مخالف پارٹی کے ساتھ صلح کر لیتے ہیں

زندگی کی تلخ یادوں سے بھرا سفر

کرن خان

آج خود سے بیٹھے بیٹھے یہ سوال کئی دفعہ کیا ، ہر بار یہی جواب ملا مسلسل جدوجہد کا نام ہے زندگی۔۔تبھی تو فیض احمد فیض نے برملا کہا ہے کہ
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے ،جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

ہر انسان اس دور میں کسی نہ کسی ٹینشن کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے چاہے چھوٹا ہو بڑا ہو بچہ ہو نوجوان ہو سب کو زندگی کے پرخار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
آج کی کہانی میں آپ کو نوجوان نسل کو کون کیرئیر کے آغاز میں درپیش مشکلات کے سامنے بارے بتانے کی ہر ممکن سعی کرین گے۔یہ چیلنجز چاہے وہ پھر لڑکی ہو یا لڑکا ہو۔ اگر کوئی محنت کرکے آگے بڑھتی جاتا ہے تو اس کو ،اتنا زیادہ پریشرائز کیا جاتا ہے اس کو اتنا زیادہ تنگ کیا جاتا ہے کہ آخر کار وہ تنگ آ کر یا تو وہ اپنا شوق چھوڑ دیتا ہے یا پھر اپنے پسندیدہ مشعلے کو خیرباد کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے۔

اگر یہاں میں ذکر کروں لڑکیوں کی تو میں انہیں چند لڑکیوں کو جانتی ہوں جو بہت محنت کر کے کسی مقام تک پہنچتی ہیں، اور پھر ان کی محنت رنگ لے آتی ہے ان کو وہ مقام مل جاتا ہے جس کیلئے وہ برسوں محنت کی چکی میں خود کو پسوا رہی ہوتی ہے، تبھی تو کسی نے کہا ہے کہ محنت اتنی خاموشی سے کروں کہ آپکی کامیابی شور مچائے اور پس وہ کامیابیوں کے سیڑھیوں میں چڑھ جاتی ہے۔۔۔مگر یہاں تلخیوں کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جس وقت یہ کہا جائے کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔

اگر اس میں چند خواتین آہی جاتی ہیں انہیں بھی اتنا زیادہ پریشرائز کیا جاتا ہے تنگ کیا جاتا کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا وہ کچھ اور کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں ایسی مثال ہماری میڈیا کی ایک دوست کی بھی ہے جب انہوں نے میڈیا کے پرخار راستوں پر قدم رکھا تو ان کو نہیں پتا تھا کہ میڈیا کے اندر کیسے لوگ ہیں کچھ اچھے ہیں کچھ بہت ہی برے ہیں ہر انسان دوسرے انسان پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے وہ کچھ وقت کے مفاد کے لیے کسی کا کریئر بھی تباہ کر دیتا ہے ایسی ہی مثال ہمیں ملتی ہے ۔

ایک چینل کی ایک رپورٹر جنہوں نے کچھ ہی عرصہ قبل ایک چینل کو جوائن کیا ان کا ماننا تھا کہ شاید یہ چینل ان کے لیے کیریئر کا سب سے بہترین چینل ثابت ہو گا وہ بہت خوش تھی کہ اس کو پورا پورا موقع دیا جائے گا شروع کی کچھ دن گزرے اس کے بعد اس کو سکرین پر آنے کا موقع ملا اس نے اپنا کام بخوبی سرانجام دیا،ابھی تین مہینے لگاتار کام کرتی رہی کچھ چیزیں نئی تھی جو نہیں آتی تھی اس کو سیکھا کچھ چیزیں سکھائی گئی آہستہ آہستہ اس کو کام کرنا آ گیا بہت خوش تھی کہ وہ اپنے ان خوابوں کو جو اس نے دیکھے تھے کو پورا کرلیگی۔

وہ اس کے بہت قریب خود کو محسوس کر رہی تھی لیکن اچانک ایک دن ایسا آیا کہ اسے آف ائیر کر دیا گیا اس کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس کی غلطی کیا ہے تین دن کے بعد اس نے جو خود سے پوچھا یہ بتائیں مجھے کیوں آف ائیر کیا گیا ہے تو پوچھنے پر پتہ چلا ان سے رپورٹ نہیں کروانی اس نے بہت سوچا کی ایسی کونسی اتنی بڑی غلطی ہوگئی ہے مجھ سے، جسے سدھارنے کا موقع بھی نہیں دیا جارہا بہت سوچنے کے بعد جواب ملا یہ فیصلہ تو پہلے سے اوپر ہو چکا تھا یہ تو بس ایک بہانہ تھا لیکن کیا کسی کے ساتھ ایسا کرنا نا انصافی نہیں۔

ہم اپنے مفاد کے لیے یہ نہیں سوچتے کہ اس کا اثر اگلے کی زندگی پر کیا ہوگا ہو سکتا ہے اس کا پورا کیریئر ختم ہو جائے، ہوسکتا ہے وہ اتنا مایوسی ہوجائے کہ میڈیا کو ہی خیرباد کہہ دیں، ہوسکتا ہے وہ پھر کبھی گھر سے باہر ہی نہ نکلے، ان کے خواب چکنا چور ہوگئے، ریزہ ریزہ ہوگئے اور وہ بھی چند لوگوں کی مفادات کے خاطر،،،، میڈیا فیلڈ اتنا بھی برا نہیں بس کچھ لوگ ہی ہیں جو ذاتی مفادات کیلئے ایسا کردیتے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس سے اگلے کی زندگی کتنی اثرانداز ہوسکتی ہے۔۔۔۔

خیر اس لڑکی نے ہمت نہیں ہاری، اس نے محنت جاری رکھنے کی ٹھان لی ہے اور اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ایک نئے سرے اپنی سفر کا آغاز کرتے ہوئے ان لوگوں کو ضرور ایک دن یہ سبق دے گی کہ تم نے لاکھ گرانے کی ٹھان لی تھی مگر جب اللہ ،،،،کسی کو اٹھاتا ہے تو پھر کوئی گرا نہیں سکتا۔بند کمروں کی صحافت میرا منشور نہیں جو بات کہوں گا سر بازار کہوں گا تم رات کی تاریکی میں مجھے قتل کروگے میں صبح کی اخبار کی سرخی میں ملوں گا

مسیحی خواتین کب تک تعصب کا شکار ہوتی رہیں گی؟

افشاں قریشی

اگرچہ آئین پاکستان میں یکساں حقوق کی پاسداری کے احکامات موجود ہیں لیکن جب اصل حقائق کا جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے یہاں آج بھی کئی علاقے اور خاندان ایسے ہیں کہ جنکی خواتین کا استحصال معمول ہے ۔ جہاں عورت کے سک سک کر زندگی گزارنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ایک عورت ہے لیکن ایک عورت جب مسیحی خاندان سے بھی تعلق رکھتی ہوگی تو اُ س کے لئے عرصہ حیات کتنا تنگ کیا جاتا ہوگا یہ واضح کرنا مشکل نہیں ، ترقی یافتہ معاشرہ میں تعلیم و شعور کی بنیاد پر خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں آج بھی اکثر مواقعوں پر تعلیم کی بجائے مذہب کی بنیاد پر اقلیتی خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم نہیں کئے جاتے ہیں اس حوالے سے چند مسیحی خواتین کی رائے بھی لی گئی جو نظر قارئین ہیں۔

شازیہ جارج کا شمار اُن باہمت خواتین میں کیا جاسکتا ہے جو دوسروں کے لیے رول ماڈل بنتی ہیں ۔ شازیہ کے والد محنت مزدوری کرتے رہے جبکہ والدہ کپڑے سلائی کرکے گھر کی کفالت کرتی تھیں، ایسی غربت کی حالت میں شازیہ جارج کا مسلسل تعلیمی مدارج طے کرتے جانا گویا عظمت کی بلندیوں کو چھونے کے مترادف ہے، شازیہ جارج نے پہلے پولیٹکل سائنس میں ماسٹر کی ڈگری لی پھر جینڈر ان ہیومن میں ایم اے کیا اور بعد ازاں تاریخ میں بھی ماسٹر کی ڈگری لینے میں کامیاب ہو گئیں۔

شازیہ جارج نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ بالکل ابتدائی تعلیم میں تو مجھے کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں آیالیکن جب گورنمنٹ مڈل سکول میں داخلہ لیا تو مجھے معلوم ہونا شروع ہوا کہ تعصب کسے کہتے ہیں، مسیحی لڑکی ہونے کی وجہ سے کلاس فیلوز مجھ سے زیادہ بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے تھے، اور پھر ایسی کتاب کو لازمی پڑھنا جسکی زبان بھی ہماری زبان نہیں بہت مشکل پیش آتی ،نہ چاہتے ہوئے بھی اسلامیات کو پڑھنا پڑتا تھا، یہ بھی خوف رہتا کہ کہیں غلط نہ پڑھ جاؤں ، غلط لکھ نہ جاؤں، ہر وقت پریشر میں رہتی تھی، امی ابو بھی روزانہ تاکید کر کے سکول بھیجتے کہ اسلامیات کو صاف لکھنا، نیچے نہ گرنے دینا غلط نہ پڑھ جانا کیونکہ دیگر اقلیتی طبقے کی طرح امی ابو بھی پریشان رہتے تھے کہ کہیں کوئی توہین مذہب کا الزام نہ لگا دیں۔

شازیہ کہتی ہیں کہ میرے ساتھ تعصب کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ میرے نام کیساتھ جارج آتا تھا لیکن میں نے کسی کے بھی برے رویےکو خاطر میں لائے بغیر تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور پھر سوشل سیکٹر میں آگئی۔ میں پنجاب کمیشن آف وومن سٹیٹس کی بورڈ ممبر بھی رہ چکی ہوں، شازیہ کہتی ہیں کہ سماجی اداروں میں آکر مجھے معلوم ہوا کہ ملازمت میں اقلیتوں کے لیے جو پانچ فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے اس میں بھی تعصب نظر آتا ہے ، ملازمت کے لیے اپلائی کے بعد لیسٹوں میں نام تو آجاتا ہے مگر انٹرویو کے لیے نہیں بلایا جاتا یہ سراسر زیادتی ہے اسکے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ اقلیتوں کے لیے ایک ادارہ بنایا گیا۔

نیشنل کمیشن فار منیارٹیز لیکن وہ خود مختار نہیں دیگر ادارے باقاعدہ قانون سازی سے بنے لیکن ہمارا ادارہ کسی قانون کے تحت نہیں بنایا گیا اسی وجہ سے خود مختار بھی نہیں جو ہمارے لیے کسی کام کا نہیں ، جسطرح دیگر ادارے خود مختار ہیں ، سو موٹو لینے کا اختیار رکھتے ہیں اور اپنی سالانہ رپورٹ بھی جاری کرتے ہیں اسی طرح ہمارے ادارے کو بھی فعال ہونا چاہیے اور سیاسی پریشر سے بھی آزاد ہونا چاہیے شازیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کم سن مسیحی لڑکیوں کو سبز باغ دکھا کر انکا مذہب تبدیل کرکے شادیاں کرنے کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔ آئے روز اخبارات میں ایسی خبریں منظر عام پر آتی ہیں کہ کیسے مسیحی بچیوں کی زندگیاں تک بر باد کر دی جاتی ہیں۔

بزرگ خاتون عشرت بیگم کہتی ہیں کہ میرے تین بیٹے ہیں تینوں شادی شدہ ہیں لیکن میں ان کے لیے بوجھ بن گئی اس لیے اس عمر میں بھی لوگو ں کے گھروں میں کام کاج کرتی ہوں لیکن مسیحی ہونے کی وجہ سے مسلم گھرانوں میں اول تو مجھے کام پر ہی نہیں رکھا جاتا اگر کام مل بھی جائے تو مجھے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، مجھ سے بات چیت بھی کم کی جاتی ہے اور کھانے پینے کے برتنوں کو بھی ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی ، اکثر ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے ہم انسان نہیں بلکہ کوئی بہت بری چیزہیں جو ہرچیزکو ناپاک کردیتی ہے، ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے لیکن ہمیں محبت نہیں دی جاتی یہ رویہ بہت دکھ دیتا ہے۔

سونیا پطرس کہتی ہیں کہ میں ایک مزدور باپ کی بیٹی ہوں جبکہ والدہ گھریلو ملازمہ ہیں، اپنے والدین کی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج میں ایم فل کر رہی ہوں۔سونیا کے مطابق جب ایک مسیحی لڑکی تعلیم کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اُسے بہت زیادہ مذہب کی بنیاد پر تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، مثلاً مڈل کلاس میں جب داخلہ لیا تو ہم دو بہنیں ہی تھیں کلاس میں جو عیسائی مذہب کی تھیں ، ہم اپنی شناخت شو نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن پھر بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اسلامیات کا سبق سناتے ہوئے ٹیچر کو پتا چل جاتا تھا، عربی نہیں پڑھ سکتے تھے، کلاس فیلوز کو جب معلوم ہوتا تو انکا رویہ ہی بدل جاتا تھا، سب سے پہلے تو لڑکیاں ہمارے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہی ختم کر دیتی تھیں، بریک ٹائم کھانے پینے کی چیزیں الگ ہو جاتی تھیں یہ رویے بہت دکھ دیتے تھے اسکے علاوہ عربی اچھی طرح نہ آنے کی وجہ سے اسلامیات میں نمبر بھی بہت کم ملتے تھے،

اسی طرح ایک لڑکی جب نوکری کے لیے باہر جاتی ہے تو جائے ملازمت پر بھی مسائل گھیر لیتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر بھی اعلیٰ عہدہ نہیں دیا جاتا ، محض اس وجہ سے کہ عیسائی مذہب رکھنے والے کی ماتحتی میں مسلم کام نہیں کر سکتے، سونیا کہتی ہیں کہ چونکہ میں فیصل آباد میں ہوتی ہوں جہاں بڑے شہروں کی نسبت لوگ تنگ زہنی کاشکار ہیں تو میں حجاب نہیں کرتی اگر دوپٹہ گلے میں ہوگا تو خود ہی کہیں گے کہ یہ مسلمان نہیں مسیحی لڑکی ہے مگر اب چونکہ میں ایک سماجی تنظیم کیساتھ منسلک ہوں اس لیے اتنی ہمت ہے کہ حالات کا مقابلہ کر لیتی ہوں لیکن گھریلو مسیحی خواتین کے لیے بہت مسائل ہیں وہ فیس نہیں کر پاتیں، میں سمجھتی ہوں ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہوں یا جاب کر رہی ہوں ہمارے ساتھ ناروا رویہ نہیں ہونا چاہیے۔خدا را ہمیں صرف خواتین کی بنیاد پر دیکھیں ہمارے مذہب کی بنیاد پر ہم سے برا سلوک نہ کیا جائےاگر چہ اب مثبت تبدیلیاں آرہی ہیں،لیکن ابھی بھی شعور کی کمی ہے،اقلیتوں کیلئے جو بھی قوانین بنے ہوئے ہیں ان پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔