قدرتی آفت ہو یا انسانی،شکار خواتین ہی کیوں؟

نبیلہ حفیظ

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وبا کے دوران تقریباً 12000ہزارصحافیوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا،اس میں ایک بڑی تعداد خواتین کی شامل ہیں، ملازمت کے جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے یہ تو ہر وہ انسان جان سکتا ہے جس کے کندھوں پر گھر کی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے،اورایسی ملازمت پیشہ خواتین تو تعداد میں کم ہی ہوتی ہیں جو بغیر کسی معاشی تنگی کےصرف شوقیہ ملازمت کر رہی ہوں ورنہ یہاں تو خاصی تعداد ان خواتین کی ہے جن کے شوق پر اپنے گھر والوں کو سپورٹ کرنے کا دباؤ غالب ہوتا ہے۔ ایسے میں ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھنا کسی بڑے ذہنی کرب سے کم نہیں ہوتا،اس دوران ہر جاب لیس خاتون صحافی کے چہرے پر معاشی پریشانی کے اثرات نمایاں نظر آئے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔اس حوالے سے چند ایسی خواتین سے تاثرات پوچھے گئے جو کورونا کے دوران ڈائون سائزنگ کا شکا ر ہوئیں:

کورونا کے دوران جبری برطرفی کا شکار معروف سینئرصحافی افشاں قریشی کا کہنا ہے کہ اِسلام نے مزدور کے حقوق کو بھی واضح طور پر بیان کردیا ہے اور ہر ایک کو انکی ادائگی کاپابند کیا ہے۔حضرت عبداللہ ابنِ عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ”مزدور کو اس کی مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔لیکن ریاست مدینہ میں خواتین صحافیوں کو خون کے آنسو رلانے پر مجبور کر دیا گیا ہے ۔مدینہ کی ریاست کا راگ الانپنے والوں کی ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا ،میڈیا مالکان بھی صحافیوں کے معاشی قتل میں برابر ذمہ دار ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی مثال دونگی کہ روزنامہ جناح میں بطور میگزین ایڈیٹر 6 سال خدمات دیتی رہی لیکن جب کرونا کی وبائی بیماری آئی تو پہلے مجھے کہا گہا کہ ہمارے حالات اچھے نہیں لیکن آپ خود کو ہمارے ادارے کا حصہ ہی تصور کریں اور کام جاری رکھیں ۔2یا 3ماہ بعد آپکو تنخوائیں پھر سے دینگے لیکن3،4ماہ بغیر تنخواہ کے کام کریں ،میں نے کام جاری رکھا مگر 7ماہ بعد میرا سیکشن ہی بند کر دیا گیا اور مجھے فارغ کر دیا گیا یعنی7 ماہ تک مجھ سے جھوٹ بولا جاتا رہا حالانکہ اس دوران سرکاری اشتہارات مسلسل شائع ہوتے رہے۔

اسمانواز نے کہا کہ کرونا کا بہانہ بنا کر خواتین صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا،بعد ازاں کرونا کے خطرات ختم ہونے کے باوجود نوکریوں پر دوبارہ بحال نہیں کیا گیا،مجھے بھی بول ٹی وی سے نکال دیا گیا کہ ادارے کے حالات اچھے نہیں ہیں حالانکہ اشتہارات اسی طرح مل رہے تھے،اسما کا کہنا تھا کہ جب اداروں کے حالات اچھے ہوتے ہیں تب تو ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی جاتیں لیکن بہانے بنا کر انہیں بے روزگار فوراً کردیا جاتا ہے،یہاں پی آر رکھنے والوں کو تو پھر بھی نوکری مل جاتی ہےلیکن جو میری طرح اپنے کام سے کام رکھتے ہیں،انہیں واپس نہیں بلایا جاتا،ایسے نہیں ہونا چاہیے،ہمارے ساتھ یہ بھی ناانصافی کی جاتی ہے کہ مالکان نوکری پر رکھنے سے پہلے ایک فارم پر دستخط لیتے ہیں جسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپکے ساتھ ناانصافی ہوبھی تو آپ اپنے حق کیلئے عملی طور پر کچھ نہ کرسکیں۔

اسما کہتی ہیں کہ خواتین صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کرنے کے بعد نئی نوکری کی تلاش میں بہت خوار ہونا پڑتا ہے،ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم جس شعبے کو پندرہ یا بیس سال زندگی کے دیں اسکے بعد کسی اور شعبے میں جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،تجربہ بھی نہیں ہوتا،بزنس کیلئے بھی پیسہ نہیں ہوتا،کم تنخواہوں پر سمجھوتہ کے باوجود بھی انصاف نہیں کیا جاتا۔

سینئر صحافی نرگس جنجوعہ نے بتایا کہ جب کووڈ کی وبا آئی تو ان دنوں میں روزنامہ جناح میں بطور ایڈیٹوریل انچارج کام کر رہی تھی،سخت پابندیوں میں بھی آن لائن کام کے بجائے دفتر جانا پڑتا تھا۔پھر حالات خراب ہوتے گئے تو دفتر میں ڈائون سائزنگ شروع ہو گئی،درجنوں ملازمین کو فارغ کر دیا گیا،میگزین سیکشن مکمل بند ہوگیا جبکہ اس سیکشن میں کام کرنے والوں کو کہا گیا کہ آپ فارغ نہیں ہیں دو سے تین ماہ میں آپ کو دوبارہ کام پر بلا لیا جائے گا تب تک نصف تنخواہ ملتی رہے گی مگر یہ زبانی کلامی باتیں ثابت ہوئیں نہ تنخواہ ملی نہ دوبارہ نوکری کےلئے انہیں بلایا گیا۔پھر مجھے بھی یہ کہہ کر نوکری سے نکال دیا گیا کہ آفس بند کررہے ہیں اس وقت میری آٹھ ماہ کی تنخواہ بھی بقایا تھی جو نہیں دی گئی جبکہ میں نے سخت حالات میں کام کیا تھا۔بہر حال بعد ازاں بڑی کوششوں سے تقریباًچھ ماہ بعد بقایا جات ادا کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جب بھی کسی دفتر کے حالات اپ اینڈ ڈائون ہوتے ہیں تو اس کا پہلا نشانہ خواتین کا روزگار ہی بنتا ہے کیونکہ ہرکوئی یہی سمجھتا ہے کہ خواتین صرف شوقیہ نوکری کرتی ہیں انہیں پیسوں کی کیا ضرورت؟جبکہ حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں،بہت سی خواتین معاشی ذمہ داریوں میں اپنے باپ،بھائی یا شوہر کا ہاتھ بٹا رہی ہوتی ہیں جس کا سرمایہ داروں کواحساس تک نہیں ہوتا۔

میں نبیلہ حفیظ روزنامہ جناح میں بطور ایڈیشن انچارج روزنامہ جناح اسلام آباد کے میگزین سیکشن میں بطور ایڈیشن انچارج اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی کہ اچانک ایک دن اڈیٹرصاحب ہمارے سیکشن میں آئے اور میرے سمیت سیکشن کی دیگر خواتین سے کہنے لگے کہ چونکہ کرونا وبا کے باعث ادارے کے حالات کافی خراب ہوچکے ہیں لہذا مذید کلر پیج جاری نہیں رکھ سکتے،آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور صرف تین سے چار ماہ تک ملازمت ترک کردیں،ادارہ آپ کو گھر بیٹھے آدھی تنخواہ دیتا رہے گا اور پھر آپ کو واپس بحال بھی کردیا جائے گا،مگر ایسا نہیں ہوا،ہمیں آدھی تنخواہ بھی نہیں دی گئی اور الٹا ہمیں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ میگزین سیکشن کو بند کردیا گیا ہے آپ لوگ نوکری سے فارغ ہیں جبکہ پچھلی تنخواہیں بھی اقساط میں ادا کی گئیں۔

میرے سمیت میری باقی ساتھی خواتین کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا،مالکان کی ناانصافی پربہت دل برداشتہ بھی ہوئی مگر کیا ہوسکتا تھا،اسی دوران ایک اور نجی چینل میں نوکری ملی مگر وہاں سے بھی انتھک محنت کے باوجود تین ماہ بعد ملازمت سے فارغ کردیا گیا،گھر کے معاملات اور اپنے تعلیمی اخراجات اس حد تک متاثر ہوئے کہ میں شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہوگئی۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہردورحکومت میں غریبوں کا اورخصوصاً خواتین کا ہی زیادہ استحصال کیوں کیا جاتا ہے،ہم صحافی خواتین عام مظلوم خواتین کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک پہنچاتی ہیں مگر افسوس کہ جرنلسٹ خواتین کو اپنے لئے آواز اٹھانے کی اجازت نہیں،آخر کیوں؟

لوگوں کو خوبصورت بنانے والوں کی بدصورت سچ

سحرش محمود

میڈیا ہاؤس جوائن کئے پہلا ہفتہ تھا میری نوکری کی لیکن ایک دن آفس میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک خاتون ایک ہاتھ میں جوتے ایک میں کپڑے اور بیگ اٹھائے تیزی سے بھاگتی ہوئی میک اپ روم کی طرف جا رہی ہے۔ تجسس پیدا ہو ایک دو ساتھیوں سے پوچھا تو وہ بولی یہ میک اپ آرٹسٹ ہیں جو ایک اینکر صاحبہ کی چیزیں ان کی گاڑی سے لائی ہیں کچھ دیر بعد دوبارہ انہی کو اینکر کے جوتے اٹھا کے میک اپ روم سے اسٹوڈیو تک جاتے دیکھا یہ روز کا معمول تھا کام پسند نہیں آیا تو چیخنے چلانے کی آوازیں باہر تک آئیں گے جہاں غلطی نہیں بھی ہے،کسی پر بس نہیں چل رہا میک اپ آرٹسٹ کو ڈانٹ دیا میک اپ پسند نہیں آیا خود لیٹ پہنچی تو ڈانٹ دیا تمھیں کام کرنا نہیں آتا۔

تیزی سے ہاتھ چلاؤ تم سست ہو،کسی اور کا میک اپ کیسے کر دیا اسے تو میرا میک اپ کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔اینکرز کی آپس کی جیلسی میں بھی یہی پستے ہیں تم نے اس کا میک اپ ذیادہ اچھا کیا،۔فیلڈ میں جانا ہے میک اپ آرٹسٹ کو بھی لے کرچلو میں اکیلی کیا کروں گی میرا بیگ کون اٹھائے گا،صبح دس بجے افس بلا لیا شو چاہے رات میں ہو کچھ اداروں میں خواتین میک اپ آرٹسٹ کی نائیٹ ڈیوٹی لگانا بھی معمول رہا ہم نے میک اپ آرٹسٹ کو اینکر کے بچے سنبھالتے بھی دیکھا ہے اس کے باوجود تنخواہ نہ ہونے کے برابر ہے جس میں پک اینڈ ڈراپ جیسی بنیادی سہولت بھی اکثر شامل نہیں ہوتی۔

میک اپ آرٹسٹ زیادہ تر یا تو ہماری مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں یا ٹرانس ہوتے ہیں دونوں کو الگ طرح کی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک ٹرانس میک اپ آرٹسٹ سے بات ہوئی تو انہوں نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر اپنے بہت سے مسائل بھی بتائے اور کچھ قصے بھی سنائے کہ لوگ کیسے تنگ کرتے ہیں کیسے بہت سے مشہور لوگوں نے صرف اس وجہ سے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ٹرانس ہیں، کس ذہنی اذیت سے گزر کر وہ کام کرتے ہیں ہر نظر کھا جانے والی ہر بات دل دکھانے والی لوگوں کی نظروں میں ان کے لئے تضخیک کا عنصرنمایاں ہوتا ہے،

اُن کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے 2006 میں کام کا آغاز کیا تووہ ایک مشہور فائیو اسٹار ہوٹل سے کام چھوڑ کر میڈیا میں آئے تھے وہاں انہیں جن مسائل کا سامنا تھا تقریبا وہی مسائل یہاں بھی موجود تھے، اس دور میں ٹرانس کے بارے میں آگاہی کی کمی تھی ایک ٹرانس کے ساتھ کام کرنے کو لوگ ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے تھے خواتین میک اپ کروانے سے گھبراتی تھیں باقی دوست بات کرنے سے، جان کر نائیٹ شفٹ میں ڈیوٹی لگانا زیادہ لوگوں کی یہی کوشش تھی وہ کام چھوڑ دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جہاں برے لوگ ہوتے ہیں وہاں کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں دنیا اسی توازن سے چل رہی ہے انہی اچھے لوگوں کی بدولت آج انہیں کام کرتے اتنا عرصہ ہوگیا مگر فیلڈ میں نئے آنے والے بہت سے ٹرانس ان مسائل لوگوں کی نظروں اور باتوں کا سامنا نہیں کر پاتے اوردل برداشتہ ہوکر نوکری چھوڑ دیتے ہیں جو کام کر رہے ہیں ان میں سے اکثر اپنی اصلیت چھپا کر مردوں کے حلیے میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

اقلیتی برادری سے کام کی غرض سے آنے والی خواتین کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے انہیں اور طرح کے مسائل کا سامنا ہے کم تنخواہ ذہنی دباؤ، ذیادہ خواتین شادی شدہ ہیں جو گھریلو مجبوریوں ،معاشی تنگی،بچوں کی پرورش کے لئے کام کرتی ہیں گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ کام کا بوجھ اینکرز کے ناروا رویے کے ساتھ انہیں اپنے ساتھیوں کی جانب سے بھی کبھی کبھی ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے تہواروں پر چھٹیاں نہیں دی جاتی کہ آپ نے کیا کرنا ہے آپ ڈیوٹی کریں۔

جانے انجانے میں لوگ ان کا دل دکھانے کا سبب بنتے ہیں جب وہ کچھ کھانے کو لائیں اور آپ کے ساتھی یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ ہم غیر مسلموں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے،مجھ یاد ہے ہماری ایک مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی ساتھی کھانا بنا کر لائیں کھانا کافی لذید تھا سب نے کھایا ،ایک دوست نئے آئے تھے کھانا تو انہوں نے کھا لیا مگر کچھ دیر بعد جب انہیں پتہ چلا کہ وہ خاتون مسیحی برادری سے ہیں تو سارا دن منہ بنا کے بیھٹے رہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہے آپ کو لوگوں کو بتانا چاہئے تھا میں کھانا نہہں کھاتا تھا۔

ہمارے یہاں میک اپ آرٹسٹ کو اس طرح سے عزت نہیں دی جاتی جس کے وہ مستحق ہیں،طبقاتی فرق ہمارے معاشرے میں اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ ہم کبھی کبھی انجانے میں اور کبھی جان بوجھ کر بھی لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا برتاؤ کرتے  ہیں کبھی رنگ، نسل، زبان، مذہب اور کبھی کسے کے پیشے کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنانا ہمارا وطیریہ بن چکا ہے۔

ہمیں اپنے رویوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے,، دنیا میں وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو معاشرے میں موجود افرادی قوت اور انکے پیشے کو اہم جانتی ہیں اور عزت دی جاتی ہے نہ کہ رنگ ،نسل اور طبقاتی سوچ  سے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر کے محرومیوں کے بیج بوئے جائیں کیونکہ اگر ابتدا کھوکھلی ہوگی تو بقا کی ضمانت بھی مشکوک ہی ٹھہرے گی۔

پاکستانی میڈیا:خواتین صحافیوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی

عاصمہ کنڈی

عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ صحافی اپنے رائے کے اظہار میں آزاد ہوتا ہے مگر افسوس کہ یہ کافی حد تک غلط ہے کیونکہ صحافی اور خاص طور پر خواتین صحافیوں کے کھیل کا میدان را مختلف اور خاردار ہوتا ہے۔ نئے زمانے نے باقی شعبوں کی طرح صحافت کے شعبے کے خدوخال کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے اب جہاں صحافی اپنی خبر لوگوں تک پہچانے کے لئے کسی نیوز چینل یا اخبار کا محتاج نہیں رہا وہیں وہ لوگوں کی تنقید اور نفرت کا بھی براہ راست سامنا کرتا ہے۔

یہ نفرت اور تنقید بہت سی خواتین صحافیوں کو اپنی آواز دبا دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔آئیے ملتے ہیں ایسی ہی خواتین صحافیوں سے جنھوں نے ٹرولنگ کے ڈر سے سوشل میڈیا اور خصوصی طور پر ٹویٹر پر اپنی رائے کا اظہار یا تو چھوڑ دیا ہے یا انتہائی محدود کر دیا ہے۔

صباحت خان بھی ایک صحافی ہیں اورگزشتہ کئی سالوں سے اس شعبے سے منسلک ہیں۔ صباحت نے دوسری شادی آرڈیننس کے حوالے سے ایک سٹوری کی اور حسب روایت اپنی سٹوری کو ٹویٹر پر شئیر کیا۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ یکایک انکو سٹوری پر غیر مناسب کمنٹس ملنا شروع ہو گئے۔ اپنا سب سے زیادہ پریشان کن لمحہ یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ، ’میری سٹوری شائد کچھ لوگوں کو ناگوار گزری اور انھوں نے کافی کمنٹس کئے مگر ایک کمنٹ مجھے آج تک نہیں بھولا کہ یہ تو خود ہی خواجہ سرا لگتی ہے اسکا اپنا شوہر دوسری شادی کرے گا۔ یہ کمنٹ میرے ابو نے بھی پڑھا اور مجھے ایسے ایشوز پر لکھنے کومنع کیا جس کیوجہ سے بےعزتی ہو۔’

صباحت آج بھی اس بات کو یاد کر کے بہت افسردہ اور دلبرداشتہ محسوس کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ، ’آجکل صحافت میں بھی ”برانڈ نیم’ چلتے ہیں کہ اگر کوئی برانڈ نیم صحافی خاتون چاہے عاصمہ شیرازی ہو یا غریدہ فاروقی، انکو ٹرولنگ کا نشانہ بنایا جائے تو سب صحافتی تنظیمیں اور مرد صحافتی برادری بھی انکے حق کے لئے آواز اٹھائیں گے لیکن ہم جیسے عام صحافی جو فیلڈ میں کام کرتے ہیں اور صحافت کا پہیہ سہی معنوں میں چلاتے ہیں انکے حقوق کسی کو یاد آتے ہیں اور نہ ہی کوئی آواز اٹھانے کی زحمت محسوس کرتا ہے۔’صباحت نے بھی سوشل میڈیا کا استعمال اب بہت ہی محدود کردیا ہے۔

وویمن جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی بانی فوزیہ کلثوم رانا سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اسکا زمہ دار کسی حد تک خود صحافیوں کو بھی قرار دیا۔ انکا کہنا تھا کہ، ”نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آجکل بہت سے صحافی اپنے شعبے کی حدود اور اصولوں سے تجاوز کر رہے ہیں۔ ہر شعبے کیطرح صحافت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جنکا خیال ہم صحافیوں کو رکھنا چائیے۔

انھوں نے کہا کہ چند ایک صحافی صحافت کے بجائے سیاست کرتے ہیں اور انکی ٹویٹس اور خبروں سے لگتا ہے کہ کسی نا کسی سیاسی پارٹی کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ بہت زیادہ تنقید اور گالم گلوچ کا سامنا کرتے ہیں اور اسکا خمیازہ باقی صحافیوں اور خصوصأ اس شعبے میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔’
بطور صحافی میں نے خود پہ سیلف سنسرشپ لگا رکھی ہے۔ ٹویٹ کرتے وقت ڈرتی ہوں کہ رائے دینے پہ گالیاں پڑ سکتی ہیں اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے ٹرول شامل ہیں۔ سیاسی بیٹ کی وجہ سے بھی گالم گلوچ سہتے ہیں۔

فوزیہ نے اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک صحافی کی اپنی ناپسندیدہ حکومت میں پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے تو وہ اسے ’پیٹرول بمب’ کہتےہیں اور حیرت انگیز طور پر اگر اپنی پسند کی حکومت ہو تو اسی قیمتوں میں اضافے کو وہ وقت کی اہم ضرورت اور معیشت کے لئے لازمی قرار دیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس طرح کی صحافت ان بڑے بڑے صحافیوں کو تو بہت سے فوائد سے نوازتی ہے مگر اس شعبے میں کام کرنے والے غیر جانبدار صحافی بھی لوگوں کی طرف سے تنقید اور نفرت کی زد میں آجاتے ہیں۔ اس طرح کی صحافت سے اس شعبے کی شفافیت پر شکوک وشہبات میں اضانہ ہوتا ہے اور نقصان سب اٹھاتے ہیں بلخصوص خواتین صحافی، جنکا کردار ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔

جب غریدہ فاروقی سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو سپورٹ کرتی ہیں جسکی وجہ سے وہ ٹرولنگ اور آنلائن تنقید کی زد میں رہتی ہیں تو انھوں نے اس سوال کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ، ’شائد آپ میرے کام اور ٹویٹس سے واقف نہیں ہیں۔ میں ہر سیاسی جماعت چاہے وہ حکمران ہو میں انکی کارکردگی، پالیسیوں اور ایکشن پے عوام کی طرف سے سوال اٹھاتی رہتی ہوں۔ یہ بطور صحافی میرا کام ہے اور میں سب پر یکساں تنقید کرتی ہوں جہاں تنقید بنتی ہے۔‘

غریدہ کا کہنا تھا کہ وہ ۲۰۱۴ سے آنلان ہراسگی کا شکار ہیں اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کارکن، مشہور شخصیات، ریٹائرڈ آفیسرز [چاہے فیک اکاؤنٹس ہوں] اس ٹرولنگ ملوث ہوتے ہیں اور انکو ریپ، اغوا اور قتل کی دھمکیاں بھی ملتی رہتی ہیں۔ ’میرے ایف آئی اے میں سات سے آٹھ کیس پڑے ہوئے ہیں اور ابھی تک کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔‘

غریدہ نے کہا کہ ’اس طرح کی ٹرولنگ اور ہراسگی کا مجھ پے کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ میں ایک مظبوط اعصاب کی حامل صحافی ہوں مگر اس بات کا تدارک اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہر صحافی خاتون میری طرح مظبوط نہیں ہوتی۔ انکو اپنی فیملی اور دوستوں کے علاوہ قانونی اداروں سے اس بارے میں بات کرنی چاہئے اگر وہ ٹرولنگ کا شکار ہیں تو۔ اگر آپ کی زہنی صحت خراب ہو رہی ہے تو آپ کو بریک لے لینی چاہیے۔‘

صدف خان جو کہ میڈیا اخلاقیات پر کام کرنے والی ایک این جی او ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کی شریک بانی ہیں ان سے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا کہ ’اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ میڈیا میں پروفیشنلزم کی کمی تو ہے، انھوں نے کہا کہ ہمارا میڈیا پیشہ ورانہ اخلاقیات کے حوالے سے بھی بہت پیچھے جا چکا ہے اور ہمیں میڈیا میں پولرائزیشن بھی نظر آتی ہے۔ اکثر صحافی بغیر تصدیق کے بھی خبر شئیر کردیتے ہیں لیکن ہمیں ان باتوں کو ٹرولنگ سے ملانا نہیں چاہئے کیونکہ دونوں چیزیں غلط ہیں۔‘

انکا مزید کہنا تھا کہ ٹرولنگ اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ غلط خبر شیئر کی گئی ہے بلکے اسکی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کی ٹرولرز کی پسندیدہ سیاسی پارٹی یا شخصیت کے خلاف کوئی بات شئیر کی گئ ہے۔انھوں نے کہا کہ ٹرولنگ اور تنقید کی وجوہات پر اختلاف ضرور ہو سکتا ہے مگر یہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین صحافیوں کے لئے آنلان سپیس کو جہاں تنگ کر رہی ہے وہیں انکی زہنی صحت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بھی بری طرح متاثر کررہی ہے

اچھی لڑکیاں ٹی وی پر نہیں آتی…

ناہید جہانگیر

اب گاؤں کے حجرے میں لوگ ٹی وی دیکھ کر کہیں گے کہ فلاں کی بیٹی بھتیجی ہے یہ ، کتنی شرم کی بات ہوگی،

یہ 2006 کی بات ہے جب پہلی مرتبہ میں پاکستان ٹیلی وژن کی سکرین پر ایک نیوز کاسٹر کے طور آن ائیر ہوئی۔ کچھ لوگوں نے سراہا اور بہت سے لوگوں کو اعتراض تھا تو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔

میرا تعلق پشاور کے شبقدر گاوں سے ہے  میں نے پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹر کیا اور پھر بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی سے میڈیا سٹدی میں ایم فل کیا آج کل بہت اداروں کے ساتھ فری لانس کام کر رہی ہوں۔

جب پاکستان ٹیلی وژن میں بطور نیوز کاسٹر یا اینکر کام شروع کیا تو لوگوں کو عجیب لگا اب تو سوشل میڈیا اور پرائیویٹ چینل کی وجہ سے تھوڑے بہت ایڈوانس ہوگئے ہیں لیکن ان دنوں لوگ شوبز اور صحافت میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے تھے جو ٹی وی پر آیا وہ ڈم ہے (  پشتو زبان کا لفظ ہے  جسکی اگر ہم لفظی ترجمہ کریں توطوائف ہو یا شوبز سے  وابسطہ لوگوں کو کہا جاتا ہے)

میں شوبز سے وابسطہ لوگوں کو برا نہیں سمجھتی لیکن لوگ شاید فرق کرنا نہیں جانتے۔ مجھے اب بھی یاد ہے ایک رشتہ دار نہیں کہا تھا اچھی لڑکیاں ٹی وی پر نہیں آتی اسکا مطلب یہ ہوا کہ میں ان کی نظر میں اچھی لڑکی نہیں ہو کیونکہ میں ٹی وی پر آتی تھی۔

یہ تو بات تھی ان پڑھ لوگوں کی چلو وہ تو ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ٹی وی پر آنے والوں اچھا نہیں سمجھتے لیکن بہت سے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کافی پڑھے لکھے یا تعلیم یافتہ تھے لیکن جب میں صحافت میں نئ آئی تو پہلا سوال جو مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کے والد حیات ہیں ۔ کیا کوئی بھائی نہیں ہے ان تمام سوالات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی ٹی وی یا ریڈیو میں کام کرتی ہیں یا صحافت کے شعبے سے منسلک ہوگی وہ غربت کی وجہ سے آتی ہیں۔ حالانکہ صحافت بھی اور پیشوں  کی طرح مہذب پیشہ ہے۔ اس میں بھی خواتین نے دنیا بھر میں نام کمایا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب 2018 میں ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے فیس بک لائیو نیوز سے آن ائیر ہوئی میں خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون تھی جو ایک مقامی میڈیا ادارے سے فیس بک لائیو نیوز پڑھتی تھی۔ تو لوگوں نے کتنا تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر لوگ جو سکرین شاٹ بھیج دیتے کہ یہ دیکھوں فلاں بندے نے کیا کمنٹ کیا ہے۔

کافی دلبرداشتہ ہوئی تھی لیکن اپنے نیوز ڈائریکٹر سید نظیر کی وہ بات آج تک یاد ہے جس نے میرا حوصلہ بڑھایا وہ یہ تھا کہ دیکھوں ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں پہلے تو لڑکیوں کو میڈیا یا صحافت پر آنے کی اجازت نہیں ہوتی اور جن کو ہے اگر وہ بھی لوگوں کی باتوں میں آجائے تو کوئی کام کرنے والا نہیں رہے گا۔ اور مجھے یہ بتاوں کہ کون اس قسم  تنقید کا نشانہ نہیں بنا ،آپ کوئی دنیا کا پہلا بندہ یا بندی نہیں ہو اگر کامیاب ہونا ہے اور نام کمانا ہے تو اپنے کام سے کام رکھوں نا سنو یا دیکھو اور آگے بڑھو۔

خیبر پختونخوا کی مختلف یونیورسٹیوں سے ہر سال سینکڑوں لڑکیاں جرنلزم کی ڈگریاں لیتی ہیں لیکن عملی میدان میں نا ہونے کے برابر آتی ہیں جو آتی ہیں ان کو بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ گھر سے اجازت مشکل سے لے کر ماموں چچا کیا کہے گا کی فکر ہوتی ہے پھر معاشرے میں کئ مسائل سے دوچار ہوتی ہیں ۔جو کافی مشکل کام ہے آسان نہیں ہے لوگ اگر خواتین صحافی کو حوصلہ اور آسانی نہیں دے سکتے تو کم از کم تنقید بھی نا کریں

hhh

تعلیمی اداروں میں بڑھتی جنسی ہراسانی، شکایات کا ازالہ کون کرے گا؟

ہما ارشد

صحافی | کالم نگار

تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے کیسز کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اورتعلیمی اداروں کی انتظامیہ ہی ایسے معاملات میں غیر سنجیدگی اختیار کرتی ہے۔

اکثر تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم ہیں تاہم وہ فعال نہیں ہیں۔ اگر فعال ہیں بھی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اگر طالبعلموں کی جانب سے کوئی ایشو اٹھایا جائے یا کسی چیز کی شکایت کی جائے تو اساتذہ اور اتھارٹیز کی جانب سے طلبا کے لیے بہت مسائل پیدا کیے جاتے ہیں اور انہیں بغیر سنے اور بنا تحقیقات کیے معاملے سے پیچھے ہٹ جانے کو کہہ دیا جاتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں طلبا اور بالخصوص طالبات کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ انہیں ایک طرف طلبا کی طرف سے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف یونیورسٹی یا کالج کی انتظامیہ اور اساتذہ کی جانب سے ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو طلبا اور ان کے والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔

ان مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے تو قصوروار طالبعلموں کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اور تعلیمی کیرئیر خطرے میں پڑ جاتا ہے کیونکہ آواز اٹھانے کی صورت میں اساتذہ کی جانب سے کم نمبرز یا فیل کر دینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یوں طالبعلم خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنا تعلیمی کیرئیر داﺅ پر نہیں لگانا چاہتے۔ جب آپ ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہوں جہاں تعلیم دلوانا بہت سے مسائل کا باعث بنتا ہو تو خاموشی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔

طالبعلموں کو زبانی اور جسمانی طور پر ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عام رویہ ہے کہ اگر کوئی تعلیمی اداروں میں ہراسگی کی بات کرے تو معاشرہ اسے مزاح کی نظر سے دیکھتا ہے اور یہ رویہ طالبعلوں کو شدید ذہنی اذہیت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔

نجی یونیورسٹی کی طالبہ زینب (فرضی نام) نے بتایاکہ ریسرچ ورک کے دوران ان کو اپنے میل سپروائزر کی جانب سے کئی مسائل پیش آئے اور ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں آئے روز سپروائزر کی جانب سے طرح طرح کھانوں کی فرمائشیں کی جاتی ہیں اور ان کے کپڑوں اور چال ڈھال پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ طالبہ کا کہنا ہے کہ چھیڑ چھاڑ کرنا، جملے بازی کر کے ذہنی اذیت پہنچانا اور آنکھوں سے ایکسرے کر کے کہنا کہ آپ کو تو لڑکے مڑ مڑ کر دیکھتے ہوں گے۔

اپنے پسندیدہ سٹوڈنٹس کو دوسرے طلبا پر ترجیح دینا، طالبعلموں کا ریسرچ پیپر اپنے نام سے شائع کروانا، جان بوجھ کر اپنے پسندیدہ سٹوڈنٹس کا نام دوسرے طالبعلموں کے ریسرچ پیپر میں لکھوانا، مفت میں سٹوڈنٹس سے اپنا کام کروانا جو ان کے متعلقہ مضمون سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی ان کو کچھ فائدہ دیتا ہے۔ اگر کوئی طالبعلم کسی بات سے انکار کر دے تواس کو نتائج کے لیے بھی تیار ہونا رہنا ہے۔

طالبہ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اپنا ریسرچ پیپر جمع کروایا تو سپروائزر کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ان کے نام سے شائع کرایا جائے اور جب میں نے انکار کیا تو دھمکی دی گئی آپ اس کو خود شائع کروائیں اور جب اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کیا جائے گا تو میں اظہار لا تعلقی کر دوں گا اور اس بات سے انکار کر دوں گا کہ آپ نے میری سرپرستی میں کام کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ آپ کو ڈیفنس اور وائیوا کلئیر کرنے میں بھی دشواری ہو گی کیونکہ میں اس وقت آپ کا ساتھ نہیں دوں گا اور اس طرح میری ساری محنت ضائع ہو گئی۔

جنسی ہراسمنٹ کا سامنا مرد کرے یا خاتون دونوں کے لیے ہی تکلیف دہ ہے اور ہراسمنٹ کے ثبوت مہیا کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔

ایک اور طالبعلم احتشام (فرضی نام) نے بتایا کہ ان کو بھی اسی طرح سپروائزر کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ طالبعلم کا کہنا ہے کہ انہوں نے دن رات ایک کر کے سپروائزر کی مدد سے تھیسیز تیار کیا لیکن آخری وقت پر مجھے کہا گیا کہ ڈیفنس میں آپ کا ساتھ دوںگا نہ ہی اب آپ کی کسی بھی طرح کی مدد کی جائے گی۔ سپروائزر کی جانب سے اس رویے کہ وجہ ان کو ایک طالبہ کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کرتے دیکھ لیا تھا۔

ہراسمنٹ جیسے جرم کو روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ متاثرین کا خاموشی اختیار کرنا اس کا حل نہیں ہے بلکہ ایسے چہروں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔ تاہم ہماری نئی نسل کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔ جنسی ہراسگی کے حوالے سے قانون بھی موجود ہے جس کی آگاہی سے متعلق اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ تعلیمی اداروں میں طلبا کو سازگار اور محفوظ ماحول میسر آ سکے اور کسی کا استحصال نہ ہو

Media-Harresment

خواتین صحافیوں کے لیے گھٹن زدہ ماحول اور کردار کشی کیوں؟

ثناء ارشد

صحافی | کالم نگار

ہر دور میں صحافیوں کو سنسر شپ، الزامات، مقدمات اور دباﺅ کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان میں صحافت کرنا تو کبھی بھی آسان نہیں رہا اور خواتین کے لیے صحافت کی دنیا میں آگے بڑھنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں میڈیا انڈسٹری میں خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے وہیں ان کو ”صنفی امتیاز“ کا بھی سامنا ہے۔

یہاں تک کہ کچھ اداروں میں صنفی تفریق کا رجحان پایا جاتا ہے اور خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو آسان ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے اور جب وہ صحافی ہوں تو ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے حملے کیے جاتے ہیں اور انہیں ٹرول کیا جاتا ہے جس کا مقصد ان پر دباﺅ ڈالنا ہوتا ہے۔

چند سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز سے خاتون صحافیوں کی تضحیک کی جاتی ہے۔ کچھ نیٹ ورکس میڈیا میں کام کرنے والی خواتین پر منظم انداز میں حملے کرنے ہیش ٹیگ اور ناشائستہ مہم شروع کرنے اور چلانے میں ملوث ہوتے ہیں۔

آن لائن یا آف لائن، دونوں صورتوں میں انہیں صنفی تفریق کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے اظہار رائے کی زیادہ آزادی فرام کی ہے لیکن اسی بنیاد پر صحافی برادری کو آن لائن ٹرولنگ اور ہراسمنٹ کا سامنا ہے یہاں تک کہ ان کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔ آئے روز ٹوئٹر پر کسی نا کسی صحافی کے خلاف ٹرینڈ چل رہا ہوتا ہے اور جب بات خواتین صحافیوں کی آئے تو ان کو نا مناسب القابات سے نوازتے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔

اگست 2020 میں پاکستان کی کچھ معروف صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراسانی کے بارے میں مشترکہ بیان بھی جاری کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ خواتین صحافیو ں کو نشانہ بنانے کے پیچھے حکومتی اہلکار ہیں جن کہ شہہ پر یہ سب شروع ہوتا ہے۔ یہ سب منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے انہیں بدنام کیا جا رہا ہے۔

خواتین کو کمزور اور آسان ہدف سمجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ دفاتر میں بھی ہراساں کیا جاتا ہے اورخواتین اس حوالے سے بہت محتاط رہتی ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے ساتھ ہونے والے ہراسگی کے واقعات کی تشہیر کی جائے۔

جب خواتین صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو ان کے لیے انتہائی عامیانہ گفتگو کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان پر جنسی نوعیت کے جملے کسے جاتے ہیں، غلیظ ترین زبان استعمال کی جاتی ہے تاکہ اس سے ان کو ڈرایا جاسکے اور وہ اپنے اظہار رائے کے حق کو مکمل طور پر استعمال نہ کرسکیں اور ڈر کر خاموش ہوجائیں۔

اب ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے کہ خواتین صحافیوں کو کام کے بجائے لباس اور چال ڈھال کے حوالوں سے پرکھا جاتا ہے اور جیسے ہی کسی خاتون نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا یا اختلاف رائے کیا وہیں لفافہ صحافی یا جانبداری کا لیبل لگ جاتا ہے، کبھی ذو معنی جملوں میں بات کی جاتی ہے تو کبھی آپ کی ساکھ پر سوال اٹھا دیے جاتے ہیں، جو امتیازی سلوک ہے۔

اکثر و بیشتر ہراسگی کی شکایت پر خواتین کو ان کے ایڈیٹرز، سپروائزرز یا ادارے کی جانب سے مناسب حمایت نہیں ملتی اور وہ اپنے اوپر ہونے والے حملوں سے خاموش ہو جاتی ہیں کیونکہ اس کردار کشی سے نہ صرف ان کی نجی زندگی بلکہ ساکھ بھی داﺅ پر لگ جاتی ہے۔

پھرہراسگی سے تنگ آکراکثر خواتین نہ چاہتے ہوئے بھی ہراساں کیے جانے اور دھمکیوں سے تنگ آ کر خود ساختہ سنسر شپ اختیار کر لیتی ہیں یا پھر میڈیا انڈسٹری ہی چھوڑ دیتی ہیں۔ کیونکہ اگر وہ اپنے کیریئر میں آگے بڑھنا چاہیں تو ان کے اہلخانہ یا معاشرے کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

خواتین صحافیوں کو اس لیے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ادارے جانبدار ہو تے ہیں وہ شکایت کرنے والے کی راہنمائی کرتے ہیں اور نہ ہی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ سب جانتے ہوئے بھی ادارے جب رسپانس نہیں کرتے تو ہراساں کرنے والوں کو مزید گنجائش مل جاتی ہے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں ہو گی اور پھر زیادہ تر معاملات میں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، یہ ایک ایسا تسلسل ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

بعض حلقوں کی جانب سے اس سب کی مذمت تو کی جاتی ہے لیکن خواتین صحافیوں کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا اور اکثر اوقات ان کو نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔

خواتین صحافیوں کے لیے تو اظہار پر بھی سزا ہے اور انکار پر بھی بقول شاعر فاضل جمیلی

مل جائے اگر ہم کو اظہار کی آزادی
ہم مانگنا چاہیں گے انکار کی آزادی

میڈیا انڈسٹری میں اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں عورت ہونے کے ناطے کرائم، کورٹ، دفاع، سیکیورٹی اور سیاسی موضوعات کی خبروں پر کام نہیں کرنے دیا جاتا اور صرف موسم یا فیشن کی بیٹ کے لیے فورس کیا جاتا ہے۔
وہیں وہ اپنے ساتھی مرد صحافیوں کے مقابلے کم تنخواہیں دینے کی شکایات بھی کرتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا میں اخبارات کے مقابلے میں تنخواہیں بہتر ہیں مگر صورتحال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے، مفادات اکثر صحافت پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ اسے ضرورت اور مجبوری کا نام دے کر صحافیوں کے پیشہ وارانہ ایشوز اور معاشی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

یہ ضروری ہے کہ میڈیا تنظیمیں، یونینز اور حکومتی عہدیداران خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل، بد سلوکی، دھونس، خوف اور سنسر شپ کے بارے میں آگاہی پھیلانے اور ان سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں اور ان کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اس ماحول کو ختم کرنے، جائز شکایات کی تلافی کے لیے اور ایسی چیزوں کی روک تھام کے لیے باقاعدہ میکینزم اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے

PFUJ

صحافیوں کے سودا گر

انیلا بشیر

کہا جاتا ہے کہ مردوں کے معاشرے میں خواتین کا گھروں سے نکلنا مشکل ہوجاتاہے اگر انہیں کہیں جاب کرنی پڑے تو ایسے میں قدم قدم پر مرد حضرات رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں لیکن میرا تجربہ تھوڑا مختلف ہے کیونکہ شعبہ صحافت ہو یا کسی بھی ادارے یا محکمے میں ملازمت کا معاملہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خواتین بھی خواتین کی ٹرولنگ کر کے سفر مشکل بنا دیتی ہیں۔

ایسا کچھ میرے ساتھ ہوا جب صحافیوں کے حقوق کے لیے بنائی جانے والی تنظیموں نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں فیک نیوز کے حوالے سے بل کے لیے احتجاجی کیمپ لگایا۔ خواتین صحافیوں کے واٹس ایپ گروپ میں جب میں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ ہماری صحافتی تنظیمیں احتجاج کی کال تو دیتی ہیں لیکن حکومت یا مالکان جن کے خلاف احتجاج کرتی ہیں ان کے ساتھ بارگین کر کے معاملہ ٹھپ کرادیتی ہیں۔

اس پر کچھ خواتین، جن کے بارے میں کہا جاتا یہ کہ وہ بھی میڈیا سے آوٹ ہونے کے باوجود ان صحافتی تنظیموں کی منظور نظر ہیں ان خواتین نے نازیبا الفاظ اور ترش جملوں سے نہ صرف نوازا بلکہ مجھے سرے سے صحافی ہی ماننے سے انکار کر دیا۔ ویسے عام طور پر ہم مرد حضرات کے رویے کی شکایت کرتی ہیں لیکن اکثرخواتین بھی اپنی فیلڈ سے منسلک خواتین کی بات کی تصدیق کیے بغیر ان کے خلاف محاذ کھڑا کردیتی ہیں۔

اس صورتحال میں گروپ کی ایڈمن اور گروپ میں موجود سرکاری ادارے سے وابستہ خاتون نے نوٹس لیتے ہوئے ان کے نازیبا الفاظ پر اعتراض کرتے ہوئے معاملہ ختم کرنے کی بات کی لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اگر کوئی غلط کام کرے تو اس کو روکنا انتہائی مشکل ہے خاص طور پر جب روکنے والے ایک خاتون صحافی ہو اور جو یہ کام کررہے ہوں وہ صحافتی راہنما ہوں۔

ہم میں سے کچھ لوگ جانتے ہیں کہ وہ خواتین ہوں یا مرد اپنے ذاتی مفاد کے لیے ان راہنماؤں کی چاپلوسی میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سینکڑوں چینلز اور اخبارات ہیں۔74 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ان اداروں میں کام کرنے والے صحافی چاہے مرد ہوں یا خواتین گو نا گوں مسائل سے دوچار رہتے ہیں جن میں کم تنخواہ، تنخواہوں کی بروقت ادائیگی، سہولیات، کام کرنے کے لیے سازگار ماحول اور خاص طورپر ملازمت کا تحفظ شامل ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے افراد کو کسی بھی وقت ادارے کی طرف سے نوکری سے برطرف کرنا ایک معمول ہے اس پر صحافتی تنظیمیں رسمی کارروائی تک بھی گوارا نہیں کرتی ہیں۔ اگر بات کی جائے حکومت کی تو بے حسی اور بے توجہی کی وجہ سے بہت سے صحافی مسائل کا شکار ہیں۔

اگر آپ نے کبھی کسی صحافی سے بات کی یا ان سے واسطہ پڑا ہو مشاہدہ کیا ہو گا کہ وہ دوسروں کے مسائل پر تو آواز اٹھاتے ہیں لیکن کے اپنے مسائل کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا، ان کی اپنی صحافتی تنظیمیں بھی خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔

سال 2008ء میں ڈیلی ٹائمز کا اردو اخبار ”روزنامہ آج کل“ کا آغاز ہوا تو اس میں کام کا موقع ملا ایک سال تک تو یہ اخبار باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا، اچانک 2009ء کے آغاز میں ہی خبریں گردش کرنے لگیں کہ اخبار کا اسلام آباد آفس بند کیا جارہاہے اور پھر یہی ہوا، جاب چلی جانے کے بعد نئی نوکری تلاش کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔

شہر اقتدار میں صحافیوں کی متعدد تنظیموں کی ممبر ہونے کے باوجود اس مسئلہ کو بھگتا ہے۔ خیر بہت سی تگ و دو کے بعد جاب مل گئی لیکن یہاں بھی یک جنبش قلم معاشی مسئلہ کو بہانہ بنا کر 72 صحافیوں کو بے روزگار کر دیا گیا۔ ہر ذی شعور انسان کے لیے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوئے ہونگے۔

ان دنوں جاب نہ ہونے کی وجہ سے کم ہی اسلام آباد شہر میں آنا جانا ہوتا تھا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ میری ایک صحافی دوست کو میرے اسلام اباد آنے کا پتہ چلا تووہ مجھے اپنے ساتھ اپنے آفس لے گئیں اور وہیں سے خبر ملی کہ وقت نیوزکے جن ملازمین کو نکالا گیا ان کے لیے پریس کلب اسلام آباد اور آر آئی یو جے کی طرف سے نوا ئے وقت کے آفس کے باہر احتجاجی مظاہرے جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میں پریس کلب کے کیفے میں موجود تھی کہ پریس کلب اور آر آئی یو جے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ہم نے وقت نیوز اور آج کل کے فارغ کیے گیے ملازمین کے لیے احتجاج کیا تھا اور مالکان سے 40 لاکھ روپے لے کر ان ملازمین کو دیے تھے۔

یہ سن کر ہم ہکا بکا رہ گئے اور اس وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ صحافتی تنظیمیں کس طرح ورکر کے نام پر پیسے بٹورتی ہیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں بھی انہیں متاثرین میں شامل ہوں تو بات کو بدل دیا گیا مجھے آج تک اس حوالے سے کسی ٹھوس جواب کی تلاش ہے

girl

علاقائیت کی بنیاد پر نشانہ بننے والی خواتین

رابعہ سید

صحافی | آئی بی سی اردو

اگرچہ صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بہت سی تحقیقات ہوچکی ہیں تاہم خواتین صحافیوں کے مسائل پرزیادہ کام نہیں ہوا کہ پاکستان میں خواتین صحافیوں کو کس قسم کے مسائل کا سامنا رہتا ہے اور خواتین کے لیے صحافت کی دنیا میں آگے بڑھنا کس قدر مشکل ہوتا جا رہا ہے؟ خواتین صحافی آن لائن کام کر رہی ہوں یا دفاتر میں، دونوں صورتوں میں انہیں مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کو کام کے بجائے لباس اور چال ڈھال اور لب و لہجے کے حوالوں سے پرکھا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر پرکھنے کے باعث خواتین صحافیوں کیلئے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو گیا ہے۔

ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی صباحت بتاتی ہیں کہ انہوں نے 2012 میں ایک اخبار میں کام کا آغاز کیا تو ان کی زبان اور علاقائی لہجے کی بنیاد پر مذاق اڑایا گیا۔ حالانکہ علاقائی لب و لہجہ انسان کے ساتھ عمر بھر چلتا ہے اور اسے بدلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی مادری بولی پہاڑی زبان ہے اور وہ اسی زبان اور لب و لہجہ کی عادی ہیں اور ان کے لہجے میں اس کا گہرا اثر پایا جاتا ہے۔ اب وہ کسی دوسری زبان یعنی اردو، انگریزی یا کسی اور زبان میں بات کرتی ہیں تو ان کے لہجے کا اثر نمایاں ہوتا تھا۔ اس بنیاد پر انہیں کئی شعبوں میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ صباحت کا کہنا ہے کہ وہ کوشش کے باوجود اس لہجے کے اثر کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

صباحت کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک بڑا عرصہ اخباری صنعت کے میگزین سیکشن میں کام کیا اور ان کا کام اسٹوری لکھنا، ایڈیٹ کرنا، خبر بنانا اور ویڈیو اسٹوری اور انڑویو کرنا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ “میں نے کئی اداروں میں کام کیا اور تقریبا ہر ادارے میں پہاڑی لہجے اور تلفظ کی ادائیگی کی بنیاد پر نہ صرف مذاق اڑایا گیا بلکہ باقاعدہ طور پر اس کا احساس بھی دلایا گیا کہ آپ کا لب و لہجہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کے بولنے میں علاقائی لہجہ کی جھلکا رہی ہے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح اسٹوری لکھتے ہوئے بھی مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ٹیلی فونک انڑویو میں بھی میرے لہجے کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا جاتا تھا اور میرے لہجے کی کاپی کر کے میرا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف لہجے کی بنیاد پر کبھی ان کے اچھے کام کی کبھی تعریف نہیں کی گئی اور نہ ہی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں کام کرنا چاہتی تھی لیکن مجھے ٹارگٹ کیا گیا اور راہ میں روڑے اٹکائے گئے اس کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور آگے بڑھتی رہی۔

ایسی ہی کہانی سوات سے رکھنے والی خاتون صحافی آفتاب جہاں کی ہے، جن کو لب و لہجے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا رہا۔

یہ کہانی صرف صباحت اور آفتاب جہاں کی ہی نہیں بلکہ ہر اس فرد کی ہے جو دور دراز علاقوں سے اٹھ کر شہروں میں اپنی صلاحیتیوں کے بلبوتے پر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالخصوص خیبر پختونخواہ، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور دور دراز کے علاقوں کے باسیوں کو لب و لہجے اور الفاظ کی ادائیگی پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ ان چیزوں کا ادراک کرنے کے بجائے کمزوری سمجھ کر مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس بنیاد پر إحساس کمتری کا شکار ہو کر لوگ اپنے ٹیلنٹ کو ضائع کریں اور کام چھوڑ دیں بلکہ اسی لہجے کو اپنی کامیابی اور پہچان بنانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ یہ زندگی کا حصہ ہیں، اسے قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے لئے لوگوں کی باتوں کو پاؤں تلے روندھ ڈالنا چاہئیے۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکے ایسا لب و لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکے اور ہم ٹارگٹ ہونے سے بچ سکیں

حال دل کس کو سنائیں؟؟؟

انیلہ محمود

سیانے کہتے ہیں جو لوگ وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتے وہ زمانے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور اس پیچھے رہ جانے کے خوف نے ہم جیسے قلم کے مزدوروں کو بھی تبدیلی کی طرف مائل کر دیا۔قلم کے ساتھ تعلق اور صحافت کا سفر تو کم و بیش دو عشروں پر محیط ہے مگر اس سفر کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کے لئے ایک عزیز دوست نے مائل کیا۔جس نے فون کیا اور دباؤ ڈالا کہ اس طویل سفر کے تجربات کو قلمبند کرو،دوست بھی ایسی جو کچھ کہہ دے تو جان لے کر بھی بات منواتی ہے مگر جان نہیں چھوڑتی۔سو اس کے کہے پر عمل کر رہی ہوں۔ویسے بھی عمر بھر دوسروں کے بارے ہی لکھتے رہے آج اپنے بارے بات کرنے کا موقع ملا تو اسے غنیمت جانا اور قلم تھام لیا،تو احساس ہوا کہ اپنے بارے لکھنا بھی دلچسپ تجربہ ہے۔

سفر کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ زبان و ادب سے دلچسپی کی بناء پر ایم اے اردو کیا بعد ازاں ایم فل اقبالیات کیا۔ساتھ ہی صحافت کا سفر بھی جاری رہا۔ایک نیوز ایجنسی میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا،وہاں کے چیف ایڈیٹر نہایت شفیق شخصیت کے مالک تھے،اللہ پاک غریق رحمت کرے وہ اولین اساتذہ میں سے تھے۔پھر چل سو چل مختلف اخبارات میں کام کیا،جہاں ایڈیشن انچارج،ادبی،خواتین،انسانی حقوق اور سیاست کے موضوعات ترجیح رہے۔سنڈے میگزین کی ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کم و بیش 15-14 سال قومی و بین الاقوامی سطح پر آئے روز رونما ہونے والی تبدیلیوں سمیت ہر قسم کے ایشوز کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا،اسکے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی کئی سال کام کیا،جہاں رپورٹنگ کے ساتھ عوامی مسائل بارے پروگرام ہوسٹ کئے اور عوام الناس کی مشکلات کے حل کیلئے متعلقہ اداروں اور حکام بالا تک ان کی آواز پہنچائی۔

سننے اور پڑھنے میں تو یہ تمام سفر بہت خوشگوار محسوس ہوتا ہے مگر ان دو عشروں میں بہت سی مشکلات،رکاوٹوں اور ناروا رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جو برداشت کرنا اگرچہ آسان نہ تھا مگر ہمت کو قائم رکھتے ہوئے اس سفر کو رکنے نہیں دیا۔کہنے کو تو جب ہراسمنٹ کا ذکر آئے تو مردوں کا خیال ہی ذہن میں آتا ہے مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ جتنی بدترین ہراسمنٹ اور ذہنی اذیت خواتین کی جانب سے ہوتی ہے تو لگتا ہے مرد ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔میرے بہت سے تلخ تجربات میں بدترین تجربہ ایک خاتون کا نامناسب رویہ تھا جس کے بلا وجہ بیر باندھنے کی وجہ سے میرے لئے نارمل رہنا،کام کرنا اور اسے برداشت کرنا محال ہوگیا تو ایک اچھے ادارے کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور رات 12 بجے ادارے کو اپنا استعفیٰ ای میل کر دیا۔

یہ میری زندگی کا بدترین واقعہ تھا جسے بھولنا ممکن نہیں۔باقی جہاں تک بات ہے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی تو وہ تو ہمارے ہاں تمام بڑے چھوٹے اداروں میں بالکل عام سی بات ہے۔اچھی تنخواہ اور مراعات پر مردوں کا حق سمجھا جاتا ہے اور خواتین کو صرف بہترین کام کرنے والا ورکر سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔خواتین کی ضروریات اور مسائل کو نہ صرف اداروں میں بلکہ پریس کلب اور صحافتی تنظیموں میں بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔مردوں کے مسائل پر بڑے بڑے احتجاج کئے جاتے ہیں جبکہ خواتین کے مسائل بارے نہ تو کوئی بات کرتا ہے اور اگر بے روزگار ہوجائیں یاجبری برطرفی کاشکار ہو جائیں تو ہماری نام نہاد تنظیموں کے عہدیدار مالکان اور ایڈیٹر صاحبان سے دوستی داؤ پر لگانے کے بجائے خواتین کو انکے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔مگر کچھ باہمت صحافی خواتین جو اگرچہ تعداد میں تو کم ہیں مگر اپنی ساتھی صحافیوں کے حق کے لئے نہ صرف ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں بلکہ ان کا حق ملنے تک چین سے نہیں بیٹھتیں۔

بات کا آغاز کیا تھا تبدیلی کے سفر سے تو ہوا کچھ یوں کہ 2018 میں ایک بزنس ٹائیکون کے قومی اخبار میں ایڈیٹر سنڈے میگزین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھی کہ اچانک احکام صادر ہوئے کہ اخبار کو معاشی بحران کی وجہ سے بند کیا جا رہا ہے،تمام لوگ کل سے نہ آئیں۔اس اچانک جبری برطرفی نے بہت سے گھروں کے چولھے بجھا دیئے مگر پھر وہی بات کہ ہماری محافظ صحافتی تنظیموں نے علامتی بیانوں اور شغل میلے کے سوا کچھ نہ کیا۔اس وقت بھی میں نے تن تنہا بزنس ٹائیکون کے ادارے کے خلاف اپنی 5ماہ کی تنخواہ کی وصولی کے لئے کیس دائر کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے عدالتی فیصلے کے بعد اپنی 5 ماہ کی تنخواہیں وصول بھی کر لیں۔

اس کٹھن وقت میں سوچا کہ آدھی زندگی تو دوسروں کی نوکری اور ان کے اداروں کو کامیابی کی منازل طے کرانے میں گزار دی جس کا صلہ یہ ہے کہ جس نے جب چاہا ادارہ بند کر دیا اور صحافی فٹ پاتھ پر آگیا تو کیوں نہ جو محنت دوسروں کے لئے کر رہے ہیں وہ اپنے لئے کی جائے۔ اس سوچ کے بعد چند ہم مزاج دوستوں نے ساتھ چلنے اور حوصلہ افزائی کی بھر پور یقین دہانی کرائی۔اس کے بعد میں نے اپنی نیوز ایجنسی کا ڈیکلیریشن لیا اسکی ویب سائٹ بنائی اور یوں تین سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا 100سے زائد اخبارات کو خبریں فراہم کر رہی ہوں ۔خاتون کو کامیابی سے ادارہ چلاتے دیکھنا آج بھی مردوں کی اکثریت کے لئے قبول کرنا مشکل ہے،مگر مسلسل محنت اور مستقل مزاجی نے مجھے الحمداللہ عزت و مقام سے نوازا ہے،نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک مجھے پڑھنے والے میری اور میرے کام کی عزت کرتے ہیں۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنی جانبداری کی وجہ سے عوام میں عزت کھو رہے ہیں،وہاں گزارہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب تک کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی قائم ہو۔میری نظر میں سیاسی جماعتوں کے پے رول پر صرف وہی لوگ کام کرتے ہیں جنہیں اپنی ذات پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ہم جیسے لوگ جو کام کے بل بوتے پر چلنا جانتے ہیں بے شک موجودہ عہد کے تقاضوں کے مطابق اس لحاظ سے کامیاب نہیں ہوتے مگر کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بننا پسند نہیں کرتے۔اس لئے ہم جیسے کام کے دھنی اور غیر جانبدار صحافیوں کے لئے اپنا ذاتی کام اور ڈیجیٹل میڈیا بہترین انتخاب ہے۔میرا اپنی دیگر ساتھیوں کو مشورہ ہے کہ وہ بھی اپنی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے کام کا آغاز کریں ،کیونکہ جتنی محنت سے اور معیاری کام خواتین کر سکتی ہیں وہ مردوں کے بس کی بات نہیں۔میرا خیال ہے اپنے صحافتی سفر کا احوال کچھ زیادہ طویل ہو گیا ہے،سوچتی تھی ”حال دل کس کو سنائیں” تو آج دوست کی وساطت سے موقع ملا تو آپ کے گوش گزار کر دیا

صحافی خواتین اور صحافت کا خار زار

رباب عائشہ

1966 میں جب میں نے صحافت کے خارزار میں قدم رکھا تومعاشرہ اور شہر کی فضا موجودہ دور سے بالکل مختلف تھی.
مخلوط اداروں میں لڑکیوں کا ملازمت کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا.

صرف تعلیم اور میڈیکل کے شعبے لڑکیاں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دیکھا سکتی تھیں اور ان میں بھی یہ شرط تھی کہ کالج یا اسکول ایسا ہو جو صرف لڑکیوں کے لیے مخصوص ہو.

ڈاکٹر ہو تو صرف خواتین کو دیکھے اور ان کا ہی علاج کرے، نرسنگ کے شعبے میں صرف کرسچن لڑکیاں ہی آتی تھیں کیونکہ مسلمان بچیوں کے لیے یہ شعبہ شجر ممنوعہ تھا.

چند سر پھری لڑکیوں نے معاشرے سے بغاوت کر کے نرسنگ اسکولوں میں داخلے لیے اور پھر ملازمت کی تو ساری زندگی منفی طعنوں کی زد میں رہیں انکے گھر والوں کو بھی یہ سننا پڑتا تھا کہ ان کی بیٹی تو ساری ساری رات مردوں کے وارڈ میں رہتی ہے اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہے توبہ توبہ توبہ پتا نہیں کیا گل کھلاتی ہو گی؟

ان دنوں صحافت کامیدان بھی خواتین سے خالی تھا وہ پرنٹ میڈیا کا دور تھا راولپنڈی میں پہلے جنگ اخبار کا اجرا ہوا پھر نوائے وقت نے اپنے پر پھیلائے، ان سے پہلے کوھستان اور تعمیر شہر کے مقبول اخبار تھے اور خوب بکتے تھے.

اسلام آباد تو اسوقت اپنی تعمیر کی بنیادیں مضبوط کر رہا تھا ان اخبارات میں جب لڑکیوں کو شامل کرنے کا رجحان پیدا ہوا تو ان کے بارے میں فیصلہ کیا گیا کہ وہ خواتین کی تقریبات کی کوریج کریں گی معروف خواتین کے انٹر ویوز کریں گی اور عورتوں کا صفحہ ترتیب دیں گی گویا انھیں صرف معاشرے کی خواتین تک محدود کر دیا گیا اور پھر اس کام کے لیے صرف ایک صحافی خاتون ہی کافی سمجھی گئی.

8 ستمبر 1966 کو جب میں نے جنگ اخبار میں ملازمت شروع کی اسوقت کوہستان میں نجمہ حمید کام کر رہی تھی جو میرے ہی کالج سے پڑھ کر نکلی تھی اور مجھ سے ایک سال سینئر تھیں۔

اس فیلڈ میں ایک اور خاتون انیس مرزا تھیں جو راولپنڈی میں ڈان اخبار کی نمائندہ تھیں صرف وہ ایسی تھیں جو سیاسی نوعیت کی خبریں فراہم کرتی تھیں اور مختلف پریس کانفرنسوں میں ڈٹ کر چبھتے ہوئے سوالات کیا کرتی تھیں وہ مجھ سے بھی پہلے سے کام کر رہی تھیں اور میں انھیں بہت پسند کرتی تھی ان کی جرات اور سے بہت متاثر تھی اس لیے میں دو دفعہ ان کے گھر جا کر ان سے ملی.

انیس مرزا نے ہی سب سے پہلے مجھے بتایا تھا کہ صحافی کو حق بات کہنے کے لیے کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے تمہاری راہ میں بےشمار رکاوٹیں آئیں گیا کوئی تمہارے اپنے ساتھی تمہیں ناکام کرنے کے لیے کوششیں کریں گے لیکن تم ڈٹی رہنا اور اپنے کام سے کام رکھنا انیس مرزا کے شوہر برما شیل میں اعلی عہده پر فائز تھے وہ اس بات سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتی تھیں کہ ان کی کسی خبر کی وجہ سے حکومتی اہلکار ناراض ہو کرمدد شوہر کی ملازمت ہی ختم نہ کروا دیں.

آج جب 56 سال بعد میں ماضی میں جھانکنے بیٹھی ہوں تو مجھے انیس مرزا کا وہ سجا سجایا ڈرائنگ روم نظر آرہا ہے جیسا اس زمانے میں بہت کم گھروں میں ہوتا تھا انیس مرزا کو زندگی کی تمام آسائشیں حاصل تھیں لیکن وہ صرف اس لیے صحافت کے میدان کی شہ سوار تھیں کہ ان کا کہنا تھا جب میں نے اعلی تعلیم حاصل کی ہے بین الاقوامی سیاست پر میرا مطالعہ وسیع ہے اور میں لکھنے کی صلاحيت لے کر پیدا ہوئی ہوں تو کیوں نا اپنی صلاحيت کے جوہر دیکھاؤں 44 سال صحافت کی کھٹن راہوں میں بھاگتے ہوئے کیا کیا مشکلات پیش آئیں یہ ایک طویل داستان ہے لیکن وہ مشترکہ رکاوٹیں اور مشکلات جن کاسامنا ہر خاتون صحافی کو کرنا پڑتا ہے ان کا ذکر ضروری ہے۔

سب سے پہلے تو اب بھی بہت سے ایسے گھرانے ہیں جہاں لڑکیوں کو بہت مشکل سے ملازمت کی اجازت ملتی ہے اس دور میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے لاتعداد ادارے ہیں، متعدد چینل اپنی نشریات پیش کر رہے ہیں مگر کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ خواتین کارکنوں کی ضروریات کیا ہوتی ہیں اور انھیں کیا سہولیات دی جائیں کہ وہ طمانيت قلب کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے سکیں؟

کام کے اعتبار سے میں بھی مرد اور عورت کی مساوات کی قائل ہوں جتنی ڈیوٹی مرد دیتا ہے عورت کو بھی اتنی ہی دینا چاہیے لیکن عورت کی کچھ ایسی مخصوص ضروریات ہوتی ہیں جو دفاتر میں پوری ہونا چاہیں۔ جیسے کہ بیشتر اداروں میں لڑکیوں کے لیے علحيده واش رومز کا تصور ہی نہیں ہوتا۔

جب میں نوائے وقت میں کام کر رہی تھی تو وہاں بھی یہ حال تھا اسوقت ہم وہاں تین خواتین تھیں ہم اپنی ڈیمانڈ درخواست کی شکل میں انتظاميہ کو دیتے رہتے تھے میری اور صائمہ کی انتہائی کوشش کے بعد اتنا ہوا تھا کہ ایک واش روم خواتین کے لیے مخصوص کر دیا گیا تھا اور اس کی چابی ہمیں دے دی گئی تھی۔

مختلف اداروں میں عورتوں کی صلاحیتوں کے بارے میں متعصبانہ رویہ ہوتا ہے۔ سوچ یہ ہوتی ہے کہ ایک مرد جتنا کام کرتا ہے اور جتنا قابل ہے عورت اس تک نہیں پہنچ سکتی۔

اس سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ دفتر میں جبھی کسی اعلی عہده پر چناؤ کا وقت آتا ہے تو خاتون کی تمام قابلیت کو پس پشت ڈال کر مرد کو اس پر فائز کر دیا جاتا ہے۔

کچھ سال پیشتر لڑکیاں آمدورفت کے مسائل سے بھی دوچار رہی ہیں۔ لڑکے تو موٹرسائیکل لے لیتے ہیں لیکن لڑکیوں کے لیے موٹر سائیکل چلانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ شکر ہے اب یہ رجحان ختم ہو گیا ہے اور لڑکیاں موٹرسائیکل اور گاڑياں چلا رہی ہیں۔

وہ لڑکیاں جو دوران ملازمت رشتہ ازدواجی میں منسلک ہوتی ہیں یا پہلے سے شادی شدہ ہوتی ہیں ان کے اپنے الگ مسائل ہوتے ہیں افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت باہر چاہیے کتنا ہی کام کرے گھر کی تمام ذمہ داریاں اسے ہی اٹھانی پڑتی ہیں گھر میں کوئی اس کی مدد نہیں کرتا پھر جب بچے ہو جائیں تو ان کی دیکھ بھال اور پرورش بھی اسے ہی کرنی پڑتی ہے۔

حکومتی اداروں میں تین ماہ کی میٹرینی لیو ہوتی ہے اور اس دوران پوری تنخواہ ملتی ہے مگر میڈیا کے اداروں میں توقع کی جاتی ہے کہ وہ بچے کی ولادت کے دس دن بعد ڈیوٹی پر آ جائے تمام حکومتی اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ڈے کئیر سنٹر بن چکے ہیں مگر صحافی خواتین کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔

حکومت کے اداروں میں عورت کے بیوہ ہونے پر عدت کی چھٹیاں ملتی ہیں مگر مجھ سے اور شمیم اکرام سے شوہر کی وفات کے دس دن بعد کہا گیا تھا ڈیوٹی پر آجائیں۔

ایک لڑکی جس دن صحافت کی دنیا میں قدم رکھتی ہے اس دن سے ہی اسے ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے مرد حضرات اپنے جملوں، اپنی آنکھوں اور ہاتھوں کے اشاروں سے اسے ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

پہلا حملہ تو اس کی شکل وصورت اور لباس کی تعریف کرنے سے ہوتا ہے وہ ان رکیک ہتکھنڈوں کو نظرانداز کرے تو اس کے پیچھے ٹھنڈی آئیں بھرنے یا گنگنانے کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے اور اب ڈیجیٹل دور میں بہت آسان ہوئے گیا ہے۔

موبائل زندہ باد کسی بھی وقت واٹس اپ پر پیار بھرا پیغام بھیج دو، شیطانی ذہن ہراساں کرنے کے بےشمار طریقے ایجاد کر لیتے ہیں کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کا قانون موجود ہے لیکن کیا کبھی اس کا نفاذ ہوا ہے؟